سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(307) نافرمان بیٹے کا جائیداد میں حصہ

  • 12298
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1976

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔ میں اپنی زندگی میں ان تمام کی شادیاں کرکے ان کے حقوق سے فارغ ہوچکاہوں، اب بڑے لڑکے نے میرے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی ہے ،میری بیوی بھی اس گستاخ اورنافرمان بیٹے کی ہم نواہے اور میری خدمت سے انکاری ہے۔ چھوٹابیٹا میرے ساتھ ہے میرے پاس کچھ جائیداد باقی ہے۔ بچیاں اپنی خوشی سے میرے چھوٹے بیٹے کے حق میں دستبردار ہوچکی ہیں۔ اب میں اپنے نافرمان بیٹے کواپنی جائیداد سے محروم کرناچاہتا ہوں کیامیں شرعاًایساکرسکتا ہوں، نیزان حالات میں جبکہ میری بیوی نے میراساتھ چھوڑدیا ہے کیا میں اسے طلاق دے سکتا ہوں ،مجھے قیامت کے دن اس کامواخذہ تونہیں ہوگا ۔ کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ بلاشبہ اولادکاوالدین کے ساتھ اچھابرتاؤ نہ کرنااوران کاگستاخ ونافرمان ہوناکبیرہ گناہ ہے۔حدیث کے مطابق قیامت کے دن اس قسم کے نافرمان اورگستاخ بچے اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے محروم ہوں گے اورانہیں کسی بھی صورت میں پاکیزہ قرارنہیں دیاجائے گا بلکہ انہیں اس جرم کی پاداش میں اللہ کے ہاں دردناک عذاب سے دوچارہونا پڑے گا ۔ لیکن ان حالات کے باوجود والد کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی جائیداد سے محض نافرمان اورگستاخ ہونے کی وجہ سے کسی کو محروم کردے، جائیداد سے محرومی کے اسباب شریعت نے متعین کردیئے ہیں، مثلاً: کفر، قتل، ارتدادوغیرہ ، ان میں اولاد کانافرمان ہونا یاگستاخ ہوناکوئی ایسا سبب نہیں ہے جسے بنیاد بناکر اسے اپنی جائیدادسے محروم کیاجاسکے ۔قرآن کریم میں بیان ہے کہ ’’یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ‘‘ فرما کرہرقسم کی اولاد کوضابطہ میراث میں شامل کیا ہے ۔البتہ جواولاد نص قطعی سے اس ضابطہ سے متصادم ہوگی اسے خارج قرار دیا جائے گا،جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے ۔ضابطہ میراث بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ضابطہ میراث پرعمل کیا جائے) جبکہ وصیت جوکردی گئی ہے اسے پوراکیاجائے اورقرض جومیت کے ذمے ہے اس کی بھی ادائیگی کردی جائے بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔‘‘    [۴/النسآء :۱۲]

اس مقام پرمفسرین نے لکھا ہے کہ وصیت میں ضرررسانی یہ ہے کہ ایسے طورپر وصیت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں یاکوئی ایسی چال چلے کہ جس سے مقصود اصل حقداروں کومحروم کرناہو۔حدیث میں ہے کہ ’’کسی کوبلاوجہ اپنی جائیداد سے محروم کرنااس قدرسنگین جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ملنے والے حصے سے محروم کردیں گے۔‘‘ (بیہقی) اس بنا پر نافرمانی اورگستاخی جیسے انتہائی سنگین جرم کے باوجود اولادکواپنی جائیدادسے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک  صحابی  رضی اللہ عنہ   نے اپنے کسی بچے کوایک غلام عطیہ کے طورپر دیا ،اس پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہاتوآپ نے فرمایا کہ ’’تو نے سب بچوں کوایک ایک غلام دیا ہے؟‘‘ صحابی  رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ نہیں، اس پرآپ نے فرمایا:

 ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے معاملہ میں عدل و انصاف سے کام لو۔‘‘     [صحیح بخاری، الھبۃ: ۲۵۸۷]

 بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے درمیان مساوات کیا کرو۔‘‘     [بیہقی، کتاب الھبات]

اگرچہ بعض علما نے یہ گنجائش نکالی ہے کہ باپ اولاد کے مخصوص حالات کے پیش نظر تقسیم میں تفاوت کر سکتا ہے، مثلاً: ایک لڑکا معذور ،اپاہج یابیمار ہے یاوہ طلب علم میں مصروف ہے لیکن انہوں نے ایسے حالات میں بھی دوسرے بھائیوں کی رضامندی کو ضروری قراردیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ باپ کوئی ایسااقدام نہ کرے جو بھائیوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کاباعث ہو اور وہ اس کے کسی اقدام سے اس کی نافرمانی کاباعث بنیں۔ صورت مسئولہ میں بھی حالات کچھ اس قسم کے ہیں خرابی کی اصل وجہ یہی ہے کہ والد بڑے لڑکے کو محروم کرناچاہتا ہے اگراس نے بڑے لڑکے کو کلیتًا محروم کردیا تو اس سے مزید بگاڑ ہوگا ۔ممکن ہے کہ یہ بگاڑ چھوٹے بیٹے اورخودباپ کے لئے زندگی اورموت کامسئلہ بن جائے ۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ باپ فرمانبرداراورنافرمان کی تمیز کئے بغیر اپنی اولاد میں مساوات قائم رکھے ،شاید ایساکرنے سے نفرت وکدورت کی آگ بھسم ہوجائے گی اورباپ کی طرف سے عدل وانصاف پرمبنی فراخ دلی آپس میں دلوں کے ملادینے کاباعث ہو۔ممکن ہے کہ اس انصاف پسندی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کوئی اتفاق کی صورت پیداکردے گا۔

سوال کادوسراحصہ نافرمان بیوی کوطلاق دینے سے متعلق ہے ۔ ہمارے نزدیک ایسے معاملات میں جلدبازی سے کام نہیں لیناچاہیے ۔طلاق دینا اگرچہ مباح ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک نا پسندیدہ عمل بھی ہے ۔اگرحالات ایسے ہوں کہ نباہ کی کوئی صورت نہ ہو تواللہ تعالیٰ نے خاوند کواختیار دیا ہے کہ وہ اپنی نافرمان بیوی کو طلاق دے کراپنی زوجیت سے الگ کردے تاکہ اسے ذہنی کوفت سے نجات مل جائے ،عین ممکن ہے کہ بیوی اس لئے خدمت سے راہ فرار اختیارکرچکی ہو کہ وہ اولاد کے درمیان مساوات اور برابری دیکھنا چاہتی ہو۔لیکن خاوندگستاخ اورنافرمان اولاد کومحروم کردینے پر تلا ہوا ہو ۔ امید ہے کہ اولاد کے درمیان برابری کی تقسیم کرنے پر بیوی بھی فرمانبردار اورخدمت گزاربن جائے ،بہرحال ہمیں اولاد کے معاملہ میں اپنے رویے پرنظرثانی کرناہوگی اوراس سلسلہ میں روارکھی جانے والی زیادتی اورناہمواری کوختم کرناہوگا ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:322

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ