سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(306) ایسے مرد سے نکاح کرنا جو بیوی کے جملہ حقوق پورے نہ کر سکے

  • 12297
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1153

سوال

(306) ایسے مرد سے نکاح کرنا جو بیوی کے جملہ حقوق پورے نہ کر سکے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کاکسی شخص سے نکاح ہوا ،کچھ مدت کے بعد عورت کو پتہ چلا کہ اس کاخاوند ناکارہ ،جوئے باز اورفحش کارہے اوربیوی کے جملہ حقوق پوراکرنے سے بھی قاصرہے ،عورت نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے غیرشرعی دھندا شروع کردیا جس کی بنا پر بیوی اورخاوند کا ہمیشہ جھگڑارہنے لگا ،نوبت بایں جارسید کہ ایک دن مذکورہ خاوند نے اپنی بیوی کومارپیٹ کر اپنے گھرسے نکال دیا ،چنانچہ وہ اپنے والدین کے ہاں چلی گئی والدین نے صلح کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ،بالآخر اس کی بیوی نے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے عدالتی چارہ جوئی کی۔ بالآخر عدالت نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا ۔اب دریافت طلب امریہ ہے کہ وہ عورت عدالتی تنسیخ نکاح کے بعد آگے کسی اوردوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہو کہ ائمۂ کرام کا اس کے متعلق اختلاف ہے ۔بعض کاخیال ہے کہ عدالت کافیصلہ نافذ العمل ہے ،جبکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ عدالت مصالحت توکراسکتی ہے لیکن طلاق چونکہ خاوند کاحق ہے، اس لئے عدالت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ان کے ما بین تنسیخ نکاح کافیصلہ کرے۔ہماری ناقص رائے کے مطابق پہلے حضرات کاموقف صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ شریعت نے خاوندکو عورت کے متعلق معاشرت بالمعروف کاپابندکیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’تم ان سے دستورکے مطابق زندگی بسر کرو۔‘‘   [۴/النسآء :۱۹]

اخراجات کی ادائیگی اوردیگر حقوق کی بجاآوری بھی خاوند کے ذمے ہے، جوصورت مسئولہ میں وہ پوری نہیں کررہا ،اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کوتکلیف دینے کی غرض سے گھروں میں روکے رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے: ’’تم انہیں تکلیف دینے کے لئے مت روکو کہ تم زیادتی کاارتکاب کرو۔ ‘‘    [۲/البقرہ :۲۳۱]

ان حالات کے پیش نظر عورت اگرمجبور ہوکر عدالت کادروازہ کھٹکھٹاتی ہے تویہ اس کاحق ہے خاوند کوچاہیے تھا کہ وہ عدالت میں حاضر ہوکر اپنی صفائی پیش کرتا ،تاکہ عدالت کویک طرفہ کارروائی کرنے کاموقع نہ ملتا،اب دوہی صورتیں ہیں:

1۔  اپنے خلاف لگائے گئے الزمات کوصحیح سمجھتے ہوئے عدالت میں حاضر نہیں ہوا ۔

2۔  وہ اپنی بیوی کواپنے گھربسانانہیں چاہتا ۔

دونوں صورتوں میں عدالت کافیصلہ صحیح اورنافذالعمل ہے۔ عدت گزارنے کے بعد عورت کسی بھی دوسرے آدمی سے نکاح کرسکتی ہے ۔یہ اس کا حق ہے جسے شریعت کسی بھی صورت میں پامال نہیں کرناچاہتی۔ مسئلہ کی وضاحت کے ساتھ ہم اس تلخ حقیقت کااظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتے ،کہ بدقسمتی سے ہمار اشریعت سے تعلق صرف ذاتی مفادات کی حدتک ہے، چنانچہ صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت نے اپنے اخراجات کو پوراکرنے کے لئے جوطریقہ کار اپنایا وہ انتہائی قابل نفریں اورباعث لعنت ہے ۔ ایک غیرت مند آدمی اس بے حیائی کواپنے گھر کب گوارا کرسکتا ہے۔ہمارے نزدیک خاوند کازدوکوب کرنے کے بعد اسے گھرسے نکال دینے کایہ اقدام اس کی غیرت کاتقاضا تھا ،چنانچہ اس نے اپنے آپ پردیوث ہونے کادھبہ نہیں لگنے دیا ،جب سر پر مصیبت پڑی ہے توشریعت کی طرف توجہ کی گئی ہے حق تویہ تھا کہ جب خاوند اخراجات پورے نہیں کرتاتھا تواسی وقت شریعت کی طرف رجوع کیاجاتا یاعدالتی چارہ جوئی کے ذریعے اپناحق لیاجاتا ،لیکن شریعت کونظر انداز کرکے بدکاری اوربے حیائی کاراستہ اختیار کیاگیا ،اس طرح حالات مزیدخراب ہوگئے ،اب اس عورت کو سوچنا چاہیے کہ قرآن وسنت کی درج ذیل آیت کہیں اس پرتونہیں چسپاں ہو رہی ’’بدکارعورتیں بدکارمرد وں کے لئے فحش کار مرد فحش کار عورتوں کے لئے ہیں۔‘‘ [۲۴/النور:۲۶]

عورت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور اپنے گناہ کی معافی مانگے اورآیندہ ایسااقدام نہ کرنے کاعز م کرے ،جس سے اس کی عزت و ناموس مجروح ہوتی ہو،تاکہ وہ کسی شریف آدمی کے لئے مزید رسوائی اورخرابی کاباعث نہ ہو ۔مختصر یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ کے بعد وہ عدت گزارنے کی پابند ہے۔ اس کے بعد وہ نکاح ثانی کرنے میں آزاد ہے ۔     [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:321

تبصرے