سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) بیٹے کو ولی بنانا شرعاً کیسا ہے؟

  • 12296
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1241

سوال

(305) بیٹے کو ولی بنانا شرعاً کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسماۃ ’’ف‘‘کااپنے خاوند سے کسی بات پر جھگڑاہوا تووہ اپنے بیٹے اوردوبیٹیوں کولے کر گھرسے فرار ہوگئی ،پھراس نے اپنے بیٹے کوولی بناکر اپنے بھتیجے سے بیٹی کانکاح کردیا جبکہ حقیقی ولی لڑکی کاباپ موجود ہے ،اس نکاح کی شرعی حیثیت کیاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیوی کاگھریلوجھگڑے کی وجہ سے اپنے بچوں کولے کر جانا انتہائی باغیانہ اقدام ہے حالانکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اگرکسی عورت سے اس کاخاوند ناراض ہے تواس کے راضی ہونے تک فرشتے اس عورت پرلعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘     [صحیح مسلم، النکاح: ۱۴۳۶]

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے لئے اس کے خاوندکوجنت یاجہنم قرار دیا ہے یعنی اس کی اطاعت باعث جنت اورنافرمانی موجب جہنم ہے ۔     [مسند امام احمد، ص: ۳۴۱،ج ۴]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی بایں الفاظ وضاحت فرمائی ہے کہ’’ جب عورت نماز پنچگانہ اداکرتی ہے اوراپنے خاوند کی اطاعت کے ساتھ ساتھ عفت وپاکدامنی اختیارکرتی ہے توقیامت کے دن اسے اختیار دیاجائے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔‘‘     [مسندامام احمد، حدیث نمبر :۱۶۶۱]

                ان احادیث کے پیش نظر ہم اس عورت کونصیحت کرناضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کولے کر اپنے گھرچلی جائے تاکہ دنیاکے ساتھ اس کی آخرت برباد نہ ہو ۔اس تمہیدی گزارش کے بعد مسئلہ کی وضاحت بایں طور پرہے کہ قرآن و حدیث میں نکاح کے لئے جواصول وضوابط بیان ہوئے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے اورسرپرست کی بنیاد قرابت ورشتہ داری پر ہے، جیسے باپ اوربھائی وغیرہ نیزقریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دارسرپرست نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ جوسرپرست باعتبار رشتہ جتناقریب ہوگا اتناہی اس کے دل میں اپنے زیر سرپرست کے لئے شفقت وہمدردی زیادہ ہوگی اوروہ اس کے مفادات کازیادہ تحفظ کرے گا ۔باپ کواس معاملہ میں اولیت اس وجہ سے حاصل ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرارشتہ دار سرپرست نہیں ہوسکتا ۔اس والد کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ حدیث میں ہے کہ’’ جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کیاوہ نکاح باطل ہے بے بنیاد اوربے سروپاہے۔‘‘    [مسند امام احمد، ص: ۱۴۵، ج ۶]

 اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۳۹۴،ج ۴]

امام حاکم رحمہ اللہ  اس حدیث کواپنی مستدرک میں نقل کرنے بعد لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت حضرت علی بن ابی طالب ،عبداللہ بن عباس ،معاذ بن جبل ،عبداللہ بن عمر، ابو ذرغفاری، مقداد بن اسود، عبداللہ بن مسعود، جابر بن عبداللہ ،ابوہریرہ ،عمران بن حصین ، عبداللہ بن عمر وبن العاص ،مسور بن مخرمہ اورحضرت انس  رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ اسی طرح ازواج مطہرات حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ اورحضرت زینبlسے بھی اس مضمون کی روایات صحت کے ساتھ موجودہیں۔ [مستدرک ، ص: ۱۷۲،ج ۲]

علامہ سیوطی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ جس روایت کودس صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بیان کریں وہ مختار مذہب کے مطابق متواتر شمارہوتی ہے۔   [تدریب الراوی، ص: ۱۱۷،ج ۲]

ان روایات کے مطابق صورت مسئولہ میں جونکاح ہوا ہے وہ باطل ہے اسی طرح نکاح کرنے والاجوڑا گناہ کی زندگی بسر کرتا ہے۔ انہیں اللہ کے حضورصدق دل سے توبہ کرنے کے بعد اپنے والد کواعتماد میں لے کر ازسرنونکاح کرناہوگا ۔امام بخاری رحمہ اللہ  جو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں ان کی مصالح عباد پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ استدلا ل میں وہ نصوص کاپہلو بھی انتہائی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے زیر بحث مسئلہ کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔

 ’’جس شخص کایہ موقف ہے کہ ولی کے بغیرنکاح نہیں ہوتا ۔‘‘

پھرایک دوسراباب قائم کرتے ہیں: ’’کوئی باپ یارشتہ دار کسی کنواری یاشوہردیدہ کانکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہ کرے۔‘‘

ان دونوں ابواب کامنشا یہ ہے کہ نہ توعورت مطلق العنان ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کرے اورنہ ہی وہ اس قدر مقہورومجبور ہے کہ اس کاسرپرست جہاں چاہے جس سے چاہے عقد کردے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس کی مزیدوضاحت کرتے ہوئے ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے: ’’اگرکسی نے اپنی بیٹی کانکاح اس کی رضامندی کے بغیر کردیاتویہ نکاح مردود ہے۔‘‘ درحقیقت شریعت اعتدال کوقائم رکھناچاہتی ہے نہ توسرپرست کواتنے وسیع اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اپنی بہن یابیٹی کی مرضی کے بغیر جہاں چاہے اس کانکاح کردے اورنہ ہی عورت کواس قدر کھلی آزادی دی ہے کہ وہ ازخودسرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرکے اپنے خاندان کی عزت وآبروکوخاک میں ملادے۔ ہاں، اگرباپ کے متعلق باوثوق ذرائع سے پتہ چل جائے کہ وہ اپنے زیرسرپرست کے لئے مہر ووفا کے جذبات سے عاری ہے یااس کے مفادات کامحافظ نہیں ہے تووہ خودبخود حق ولایت سے محروم ہوجاتا ہے ۔

حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے، چنانچہ بعض روایات میں ’’ولی مرشد ‘‘کے الفاظ ملتے ہیں ۔[بیہقی ،ص: ۱۲۴،ج ۷]

جس کا مطلب یہ ہے کہ جوسرپرست ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہووہی فریضہ نکاح کی اجازت کاحقدار ہے ۔بہرحال صورت مسئولہ میں بیان کردہ نکاح سرے سے منعقد نہیں ہوا کیونکہ حقیقی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہواہے اوروہ اپنی بچی کے متعلق ہمدردی کے جذبات بھی رکھتا ہے۔     [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:319

تبصرے