السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنے والدین کے کہنے پر اپنی مرضی کے خلاف پہلے سے تیار کردہ طلاق نامہ پردستخط کئے ہیں جبکہ میں نے زبان سے طلاق وغیر ہ کے الفاظ نہیں کہے اورنہ ہی میراطلاق دینے کاارادہ تھا ،اب ہم صلح کرناچاہتے ہیں میری راہنمائی فرمائیں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال میں واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں جبرواکراہ کی کوئی صورت نہیں ہے کہ اس میں دی ہوئی طلاق کو غیرمؤثر قراردیاجائے ،طلاق دیتے وقت زبان سے اقرارضروری نہیں بلکہ طلاق دینایالکھے ہوئے طلاق نامہ پردستخط کرنابھی اقرار ہی کی ایک صورت ہے۔ اس بنا پر مذکورہ طلاق رجعی ہے بشرطیکہ پہلی یادوسری طلاق ہو ،طلاق رجعی کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع ہوسکتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اگران کاآپس میں صلح واتفاق کاارادہ ہوتوخاوند حضرات انہیں دوران عدت واپس لینے کازیادہ حق رکھتے ہیں ۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۲۸]
عدت گزرجانے کے بعد بھی تجدیدنکاح سے تعلقات کواستوار کیاجاسکتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر: ۲۳۲ میں اس کی صراحت ہے لیکن اس صورت میں عورت کی رضامندی ،سرپرست کی اجازت سے نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح ہوگا ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب