سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(299) طلاق نامہ پر دستخط کرنا اور زبان سے طلاق نہ دینا

  • 12290
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1612

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنے والدین کے کہنے پر اپنی مرضی کے خلاف پہلے سے تیار کردہ طلاق نامہ پردستخط کئے ہیں جبکہ میں نے زبان سے طلاق وغیر ہ کے الفاظ نہیں کہے اورنہ ہی میراطلاق دینے کاارادہ تھا ،اب ہم صلح کرناچاہتے ہیں میری راہنمائی فرمائیں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال میں واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں جبرواکراہ کی کوئی صورت نہیں ہے کہ اس میں دی ہوئی طلاق کو غیرمؤثر قراردیاجائے ،طلاق دیتے وقت زبان سے اقرارضروری نہیں بلکہ طلاق دینایالکھے ہوئے طلاق نامہ پردستخط کرنابھی اقرار ہی کی ایک صورت ہے۔ اس بنا پر مذکورہ طلاق رجعی ہے بشرطیکہ پہلی یادوسری طلاق ہو ،طلاق رجعی کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع ہوسکتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اگران کاآپس میں صلح واتفاق کاارادہ ہوتوخاوند حضرات انہیں دوران عدت واپس لینے کازیادہ حق رکھتے ہیں ۔‘‘    [۲/البقرہ :۲۲۸]

عدت گزرجانے کے بعد بھی تجدیدنکاح سے تعلقات کواستوار کیاجاسکتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر: ۲۳۲ میں اس کی صراحت ہے لیکن اس صورت میں عورت کی رضامندی ،سرپرست کی اجازت سے نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح ہوگا ۔    [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:316

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ