السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی بیوی کوبحالت غصہ ایسے طہر میں طلاق دی جس میں وظیفۂ زوجیت اد اکرچکا تھا، پھرچنددنوں بعد رجوع کرکے ہم نے اپنی ازدواجی زندگی کوبحال کر لیا اس عرصہ بعد میں نے اسے تحریر ی طورپر دوسری طلاق دی، پھررجوع کر لیا۔ آخر کار اس کے معاندانہ رویے سے تنگ آکر میں نے تیسری طلاق بھی لکھ کرروانہ کردی ۔اب ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ایسے حالات میں رجوع کرنے کی کوئی صورت ممکن ہے؟ کچھ علما نے مجھے کہاہے کہ چونکہ پہلی طلاق طریقہ اسلام سے ہٹ کر دی گئی تھی لہٰذا وہ کالعدم ہے اب گویا دوطلاقیں ہوئیں ،لہٰذا رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ میری صحیح راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلا ق کامعاملہ انتہائی نزاکت کاحامل ہے، اس لئے یہ اقدام کرنے سے پہلے خوب سوچ بچار کرلینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنسی مذاق سے یہ معاملہ سرانجام دینے کوبھی سنجیدہ قراردیا ہے اورقانونی اعتبار سے اسے نافذالعمل کہا ہے۔ [ابوداؤد ، الطلاق:۲۱۹۴]
پھروہ معاملات جوحلال وحرام سے متعلق ہیں ان میں بہت حزم واحتیاط سے کام لیناچاہیے۔اس کااندازہ درج ذیل واقعہ سے ہوتا ہے ۔
فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی لونڈی کاناجائز بیٹا قانونی اعتبار سے زمعہ کابیٹاقرار دیتے ہوئے اس کے دوسرے بیٹوں کے حوالے کردیا لیکن چونکہ اس کی شکل وصورت زانی مرد سے ملتی جلتی تھی، اس لئے آپ نے زمعہ کی بیٹی ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ’’تم نے اپنے اس ’’قانونی بھائی‘‘ سے پردہ کرنا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے آخری دم تک اسے نہیں دیکھا۔ [صحیح بخاری ،البیوع :۲۰۵۳]
اس مختصر تمہید کے بعد ہم صورت مسئولہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ شریعت کی نظر میں شوہرکی طرف سے مخصوص الفاظ کے ذریعے نکاح کی گرہ کھول دینے یااس کے کمزورکردینے کانام طلا ق ہے، پھر طلاق دیتے وقت اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیاجائے تواسے طلاق سنت کہاجاتا ہے اور اس طریقہ کے خلاف طلا ق دینے کوطلاق بدعت کہاجاتا ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے طلاق سنت کی تعریف بایں الفاظ کی ہے کہ دوگواہوں کے سامنے خاوند اپنی بیوی کوبحالت طہر ایک طلاق دے بشرطیکہ اس طہر میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو۔ [صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر:۱]
واضح رہے کہ طلاق سنت کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح طلاق دینے میں کچھ ثواب ملے گاکیونکہ طلاق فی نفسہ عبادت نہیں کہ اسے اختیار کرنے میں ثواب کی امید رکھی جائے، پھر طلاق سنت کے مقابلہ میں طلاق بدعت کی درج ذیل صورتیں ہیں:
1۔ طہرکے بجائے حالت حیض یاحالت نفاس میں طلاق دی جائے۔
2۔ ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں خاوند اپنی بیوی سے مباشرت کرچکا ہو۔
3۔ ایک طلاق کے بجائے بیک وقت تین طلا ق دیدے۔
4۔ دوگواہوں کے بغیر طلاق دے یہ بھی یادرہے کہ حالت حمل میں طلاق دینابھی طلاق سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: ’’تم اپنی بیوی کوحالت طہر یاحالت حمل میں طلاق دو۔‘‘ [صحیح مسلم ، الطلاق:۱۴۷۱]
طلا ق بدعت کی مندرجہ بالاصورتوں میں طلاق کے نافذ ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔ جمہور ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ ان حالات میں دی ہوئی طلاق کے واقع ہونے کاموقف رکھتے ہیں اگرچہ خلاف سنت طریقہ اختیارکرنے سے گناہ اورمعصیت ہے ۔اس کے برعکس امام ابن تیمیہ ،امام ابن قیم ،امام ابن حزم ،علامہ شوکانی اورنواب صدیق حسن خاں رحمہم اللہ کاموقف ہے کہ ایسے حالات میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوگی کیونکہ یہ طلاق بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہوتی ہے توگمراہی سے کسی قسم کاحکم ثابت نہیں ہوتا ،نیز حدیث میں ہے کہ’’ جس نے کوئی ایساکام کیاجس پرہماراحکم نہیں وہ مردودہے۔‘‘ [صحیح بخاری ـ:۲۶۹۷]
چونکہ طلاق بدعت کاحکم اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا ،جب یہ مردودہے تواسے شمار کیونکر کیاجاسکتا ہے لیکن جمہور علما اپنے مؤقف کے متعلق بہت مضبوط دلائل رکھتے ہیں جن میں سرفہرست امام بخاری رحمہ اللہ ہیں اورہمارارجحان بھی اسی طرف ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر طلاق بدعت کی پہلی صورت کاجائزہ لیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
’’جب حائضہ کوطلاق دی جائے تووہ اس طلاق کی وجہ سے عدت گزارے گی۔‘‘ [صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر: ۲]
بخاری کے ایک نسخہ میں ہے کہ دوران حیض دی ہوئی طلاق کوشمار کیاجائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو ذکر کیاہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاتذکرہ کیاتوآپ نے فرمایا کہ ’’وہ رجوع کرے‘‘ ایک راوی کہتا ہے کہ آیا کیا گیا ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کیوں نہیں ۔ [صحیح بخاری ، الطلاق:۵۲۵۲]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے مختلف طریق ذکر کرنے کے بعد اس بات کوثابت کیاہے کہ دوران حیض دی گئی طلاق کو شمار کیاجائے گا ۔ [ارواء الغلیل، ص: ۱۳۳،ج ۷]
اسے طلاق شمار کرنے کے متعلق کچھ آثاروقرائن حسب ذیل ہیں :
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کورجوع کاحکم دیا اوررجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہوتا ہے، اس رجو ع کو لغوی قرار دیناسخن سازی اورسینہ زوری ہے ۔ [بیہقی ،ص: ۹،ج ۴]
2۔ اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم نے جوطلاق دی ہے وہ ایک ہے۔‘‘[دار قطنی، ص:۹،ج۴]
3۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’وہ طلاق جواس نے دی ہے، شمار کی جائے گی۔‘‘ [بیہقی ، ص:۲۳۶،ج۷]
4۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما خودکہتے ہیں کہ یہ طلاق مجھ پر شمارکرلی گئی۔ [صحیح بخاری :۵۲۵۳]
ایک راویت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی خیال نہ فرمایا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اس طریقہ کار کودرست خیال نہ فرمایا۔ صور ت مسئولہ میں ہے کہ خاوند نے پہلی طلاق ایسے طہر میںدی تھی جس میں وہ بیوی سے مقاربت کر چکا تھا۔ اس کے متعلق بھی اختلاف ہے ۔لیکن جمہور علما اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح طلاق دینا اگرچہ گناہ اورمعصیت ہے لیکن اس کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی، جیسا کہ مسروقہ چھری سے جانور ذبح کرنااگرچہ گناہ ہے لیکن جانور ذبح ہوجائے گا۔ اسی طرح گواہوں کے بغیر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، حالانکہ ایساکرناگناہ ہے ۔اب ہم صورت مسئولہ کو دیکھتے ہیں کہ سائل نے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کر لیا، پھرتحریری طورپر دوسری طلاق دی، پھررجوع کرلیا آخرکا ر بیوی کے معاندانہ رویے کی وجہ سے تیسری طلاق بھی دے دی اوراب ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے ۔سائل نے بیوی کو طلاق دینے کانصاب پوراکرلیاہے کیونکہ خاوند کو زندگی میں صرف تین طلاق دینے کااختیار دیا گیا ہے ان میں پہلی دورجوعی اورآخری قطعی ہوتی ہے اس کے بعد عام حالات میں رجوع نہیں ہوسکتا ،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’طلاق (رجعی )دوبار ہے، پھریاتوسیدھی طرح سے اپنے پاس رکھاجائے یابھلے طریقے سے اسے رخصت کردیاجائے ۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۲۹]
پھراگر مرد(تیسری مرتبہ )طلاق بھی دیدے تواس کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال نہ رہے گی تاآنکہ وہ کسی شخص سے نکاح کرے ۔ [۲/البقرہ :۲۳۰]
ان آیات کے پیش نظر صورت مسئولہ میں سائل نے وقفہ وقفہ کے ساتھ رجوع کے بعد اپنے اختیارات کواستعمال کرلیا ہے۔اگرچہ پہلی طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے خلاف دی ہے، تاہم گناہ اورمعصیت ہونے کے باوجو د تیر اپنے ترکش سے نکل چکاہے اورنشانے پرلگ گیا ہے، اسی طرح باقی دوطلاق بھی دے چکا ہے ہمارے نزدیک اب رجوع کی کوئی صورت نہیں ہے۔ قرآن کریم کے مطابق صرف ایک صورت باقی ہے کہ وہ عورت آبادی کی نیت سے آگے نکاح کرے کسی قسم کی حیلہ گری پیش نظرنہ ہو ،پھرازدواجی زندگی بسر کرنے کے بعدوہ اسے طلاق دیدے یافوت ہوجائے توعدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہاں، اگروہ دوسرااسے طلاق دیدے توپھر پہلا خاوند اوریہ عورت دونوں اگرظن غالب رکھتے ہوں کہ وہ حدوداللہ کی پابندی کرسکیں گے تووہ آپس میں رجوع کرسکتے ہیں اوران پرکچھ گناہ نہیں ہوگا۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۳۰]
اگرچہ ہمارے بعض اہل علم کاموقف ہے کہ پہلی طلاق طریقہ نبوی کے مطابق نہیں دی گئی اس بنا پر وہ واقع نہیں ہوئی، لہٰذاابھی رجوع کی گنجائش ہے لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں کیونکہ جمہورامت کے خلاف ہے، نیز حزم واحتیاط کابھی تقاضا ہے کہ ایسے مشتبہ امورسے اجتناب کیاجائے اورشکوک وشبہات والے معاملات کونظرانداز کردیاجائے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب