السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اپنے چھوٹے بھائی کے نکاح کے لئے تقریباً7سال قبل اپنے خالوکے پاس گیا انہوں نے کہا تم بھی اپنی ہمشیرہ کانکاح میرے بیٹے سے کردو،میں نے کہاکہ میری ہمشیرہ تودینی درس گاہ میں زیرتعلیم ہے۔ فراغت کے بعد سوچ وبچار کروں گا، اسی دوران میرے بھائی کارشتہ کر دیا گیا مجھے بعد میں علم ہوا کہ اس طرح کامشروط نکاح وٹہ سٹہ کے زمرے میں آتا ہے، اس لئے میں نے اپنی ہمشیرہ کارشتہ دینے سے یکسر انکار کردیا لیکن برادری والے مجھے یہ کام کرنے پر مجبورکرتے ہیں۔واضح رہے کہ میرے والد نے اپنی زندگی میں میری بہن کی منگنی میرے چچازاد سے کردی تھی۔میرے والد کے فوت ہونے کے بعدبرادری کی طرف سے دباؤ ڈالاجارہاہے کہ میں اپنی ہمشیرہ کی منگنی اپنے خالوزادبھائی سے کروں ۔قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں کہ واقعی اس قسم کانکاح وٹہ سٹہ کے زمرے میں آتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال میں واضح ہوکہ مذکورہ صورت وٹہ سٹہ کی ہی ہے، جسے شریعت نے حرام اورناجائز ٹھہرایا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح سے منع فرمایاہے ۔ [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۱۲]
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’دین اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔‘‘ [صحیح مسلم ،النکاح :۳۴۶۸]
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔’’نکاح شغار اوراس کا بطلان۔‘‘ حضرت نافع رحمہ اللہ ا س کی تفسیر بایں طور پر فرماتے ہیں’’کہ آدمی اپنی بیٹی یاعزیزہ کسی دوسرے شخص سے اس شرط پرکرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یاعزیزہ کانکاح اس سے کردے گا ۔‘‘ [صحیح مسلم، کتاب النکاح]
بعض روایات میں اس شرط کے ساتھ یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ دونوں لڑکیوں کاکوئی الگ حق مہر مقرر نہ کیا جائے۔[صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۱۲]
واضح رہے کہ مہر ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پرکوئی اثرنہیں پڑتا ،کیونکہ نتیجہ اورانجام کے اعتبارسے دونوں صورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں ،اگر ناچاقی کی صورت میں ایک لڑکی کاگھربرباد ہوتا ہے تودوسری بھی ظلم وستم کانشانہ بن جاتی ہے۔قطع نظرکہ نکاح کے وقت ان کا الگ الگ حق مہر مقررکیاگیا تھایانہیں ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح کے ایک نکاح کوباطل قراردیا تھا، حالانکہ ان کے درمیان مہربھی مقرر تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا تھا۔‘‘ [ابوداؤد، النکاح: ۲۰۷۵]
ہمارے نزدیک اس قسم کے نکاح کی تین صورتیں ممکن ہیں:
1۔ نکاح کا معاملہ کرتے وقت ہی رشتہ دینے لینے کی شرط کرلی جائے یہ صورت بالکل باطل حرام اورناجائز ہے ۔
2۔ نکاح کے وقت شرط تونہیں کی، البتہ آثار وقرائن ایسے ہیں کہ شرط کاسامعاملہ ہے۔ انجام کے اعتبار سے یہ بھی شغارہے اورایساکرناجائز نہیں ہے کیونکہ صرف جواز کاحیلہ تلاش کرنے کے لئے ایساکیاگیا ہے ۔
3۔ نکاح کرتے وقت شرط بھی نہیں کی اورنہ ہی آثاروقرائن شرط جیسے ہیں۔ اس صورت کوجائز قراردیاجاسکتا ہے کیونکہ اس قسم کاتبادلہ نکاح محض اتفاق ہے ۔اس طرح کے نکاح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دورمیں متعدد مرتبہ ہوئے ہیں ۔
صورت مسئولہ میں نکاح کی پہلی شکل ہے کہ خالونے بات چیت کے وقت ہی اس شرط کااظہار کردیاتھا لیکن دوسری طرف سے اس شرط کوقبول نہیں کیاگیا بلکہ آیندہ کے حالات وظروف پراسے چھوڑ دیا گیا، پھرلڑکی کے والد نے کسی اور کے ساتھ اس کی منگنی بھی کردی ہے، اب برادری کی طرف سے منگنی توڑکرخالوزادسے منگنی کرنے پر دباؤ ڈالناصحیح نہیں ہے بلکہ ایساکرناکتاب وسنت کے خلاف ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب