السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر اپنے آشنا کے پاس آگئی اوراس سے شادی کاارادہ ظاہر کیا ،آشنا نے لڑکی کے والدین سے فون پررابطہ کرکے اس سے شادی کی اجازت طلب کی توانہوں نے یہ کہہ کرفون بند کردیا کہ وہ گھر سے بھاگ کر گئی ہے اورآپ سے شادی کرناچاہتی ہے، اس لئے ہماری طرف سے اجازت ہی ہے لیکن ہماری طرف سے کوئی بھی شادی میں شریک نہیں ہوگا ،آشنا نے اپنے دوستوں کوگواہ بناکر عدالتی نکاح کرلیا ،چندسال بعد لڑکی کے والدین سے صلح ہوگئی ۔ اس نکاح کو تقریباً 15 سال ہوگئے ہیں چار بچے بھی ہیں۔ اس نکاح کی شرعی حیثیت سے ہمیں آگاہ کریں کہ صلح کے بعد انہیں دوبارہ نکاح کرناچاہیے تھا یا پہلا نکاح ہی کافی تھا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے معاشرے کایہ المیہ ہے کہ ہم ایک کام کواپنے ہاتھوں خراب کردیتے ہیں ،پھر اس خرابی کو موجودرکھتے ہوئے اس کاکوئی شرعی حل تلاش کرتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں ایسا ہی معاملہ درپیش ہے کہ لڑکی خود گھر سے بھاگ کر آئی ہے اور اپنے آشناسے شادی کرنے کااظہار کرتی ہے ۔آشنا کوبھی علم ہے کہ والد کی اجازت کے بغیرنکاح نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فوراًلڑکی کے والد سے نکاح کی اجازت لینے کے لئے رابطہ کیا۔لڑکی والوں نے جوجواب دیا ہے اس سے ان کی اجازت کوکشید نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ انہوں نے اپنی غیرت کا اظہارکیا ہے کہ جب ہماری لڑکی گھرسے بھاگ گئی ہے توہماری عزت تو اس وقت پامال ہوچکی ہے، اب ہم اجازت دیں یانہ دیں اس سے معاملہ کی سنگینی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لئے ’’ہماری طرف سے اجازت ہی اجازت ہے۔‘‘ کے الفاظ کوحقیقی اجازت پرمحمول نہیں کیاجاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برملاکہا کہ ہماری طرف سے اس ’’شادی‘‘ میں کوئی شرکت نہیں کرے گا۔ حق تویہ تھا کہ لڑکی کوسمجھا بجھا کرواپس بھیج دیاجاتا ،پھرحالات سازگار ہونے پر نکاح کی بات چیت ہوتی ، لیکن لڑکی اور لڑکا دونوں جذباتی تھے اس جذباتی رومیں شادی ہوگئی ۔اس کے بعد لڑکی کے والدین نے حالات سے مجبور ہو کر صلح کرلی۔حدیث میں بیان ہے کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ولی کی اجازت کے بغیرنکاح درست نہیں۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۳۹۴،ج ۴]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تواس کانکاح باطل ہے۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ [ابوداؤد،النکاح : ۲۰۸۳]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کانکاح نہ کرے، یعنی نکاح میں اس کی سرپرستی نہ کرے اورنہ ہی کوئی عورت خود اپنانکاح کرے، بلاشبہ وہ بدکار عورت ہے جس نے اپنانکاح خود کرلیا۔‘‘ [ابن ماجہ ، النکاح :۱۸۸۲]
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ صورت مسئولہ میں جونکاح ہوا ہے وہ سرپرست کی اجازت کے بغیر ہوا ہے جبکہ اس کی اجازت انعقادنکاح کے لئے شرط ہے، لہٰذاا س ’’عدالتی نکاح‘‘ کو نکاح تسلیم نہیں کیاجاسکتا ،ہمارے نزدیک دوصورتوں میں عدالتی نکاح صحیح ہوتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ جس عورت کاکوئی بھی سرپرست نہ ہوتوعدالت کی سرپرستی میں اس کانکاح کیاجاسکتا ہے اگرعدالت تک رسائی مشکل ہو تو گاؤں یامحلے کے سنجیدہ اورپختہ کارلوگوں پرمشتمل یاپنچائت کی سرپرستی میں بھی نکاح کیاجاسکتاہے ۔
٭ کسی عورت کاولی موجودہے لیکن وہ اپنی ولایت سے ناجائزفائدہ اٹھانا چاہتا ہے یا اپنے مفادات کی وجہ سے لڑکی کا کسی غلط جگہ پر نکاح کرنے پرتلاہواہے توایسے حالات میں بھی عدالت یاپنچائت کی سرپرستی میں نکاح ہوسکتا ہے ۔
چونکہ اس نے نکاح سے پہلے اپنے والد سے رابطہ کیااور اس کے ان الفاظ سے کہ ’’اجازت ہی اجازت ہے ‘‘سے فائدہ اٹھاکر عدالتی نکاح کیا ہے۔ لہٰذا اس شبہ نکاح کافائدہ ’’ملزم‘‘ کوملناچاہیے۔ اس کافائدہ صرف اتنا ہی ہوناچاہیے کہ اس کی اولاد کوصحیح النسب قرار دیا جائے لیکن حقیقت کے اعتبار سے نکاح صحیح نہیں ہے۔ اس لئے آیندہ اسے گناہ کی زندگی سے بچانا چاہیے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ ان کے درمیان فوراًعلیحدگی کردی جائے ۔ایک ماہ تک دونوں ’’میاں بیوی‘‘ ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ انہیں اس فعل شنیع پرملامت بھی کی جائے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے معافی اوراستغفار کی تلقین کرنی چاہیے، پھرایک ماہ بعدازسر نونکاح کیا جائے اور نکاح کی شرائط کوملحوظ رکھاجائے ۔ہمارے نزدیک احتیاط کاتقاضا یہی ہے۔ امید ہے کہ ایسا کرنے سے دونوں قیامت کے دن مواخذہ سے محفوظ رہیں گے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب