سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(289) عدت کہاں گزارے؟

  • 12280
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 3263

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص اپنی بیوی کوایسے آشیانہ میں چھوڑکر سفر آخرت پرروانہ ہواجہاں عزت وآبرواورجانی تحفظ نہیں ہے۔ اس کاذاتی مکان یاترکہ بھی نہیں ،کیا اس کی بیوی اس پر وحشت ماحول اور اجنبی گردوپیش میں عدت کے ایام گزارے یا اپنے والدین کے ہاں عدت گزارنے کی اجازت ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے ،حدیث کی روشنی میں اسے درج ذیل امور کی پابندی کرناضروری ہے:

٭  جس گھر میں خاوند کی وفات کے وقت رہائش پذیر ہو وہیں چارماہ دس دن گزارنا یاحمل کی صورت میں وضع حمل تک وہاں رہناضروری ہے۔ اس گھرسے بلاوجہ باہر رہناجائز نہیں ہے۔

٭  اسے خوبصورت لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں ہے بلکہ سادہ لباس زیب تن کرکے یہ دن گزارے جائیں ،کیونکہ رسول      اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات کاحکم دیا ہے۔

 ٭  دوران عدت سونے چاندی اورہیرے جواہرات وغیرہ کے زیورات بھی نہیں پہنناچاہیے، یعنی ہار، کنگن اورانگوٹھی وغیرہ انہیں زیورات میں شامل کیاجاتا ہے لہٰذا ان کے استعمال سے اجتناب کرے ۔

٭  خوشبواوردیگرعطریات کے استعمال سے بھی پرہیز کرے لیکن حیض سے فراغت کے بعدبودورکرنے کے لئے خوشبو وغیرہ استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے ۔

 ٭  سرمہ اورپاؤڈروغیرہ جوکہ چہرے کی زیبائش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، انہیں بھی استعمال نہ کیاجائے، البتہ غسل کرتے وقت صابن استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ان کے علاوہ کچھ پابندیاں خودساختہ ہیں، مثلاً: کسی سے بات چیت نہ کرنا، ہفتہ میں صرف ایک بار غسل کرنا،گھر میں ننگے پاؤں چلنا یہ سب خرافات ہیں ۔اگر حالات سازگار ہوں تو بیوہ کااس مکان میں عدت کے ایام پوراکرناضروری ہے، خواہ وہ اس کی ملکیت نہ ہو، جیسا کہ حضرت فریعہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ اس کاخاوند اپنے بھاگے ہوئے نئے غلاموں کی تلاش میں نکلاتھا ۔انہوں نے اسے قتل کردیا تومیں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے میکے جانے کے متعلق دریافت کیا کیونکہ میرے خاوند نے اپناذاتی مکان یانفقہ نہیں چھوڑاتھا ۔آپ نے اجازت دیدی ۔جب واپس جانے لگی توآپ نے مجھے آواز دی اورفرمایا: ’’تم اپنے پہلے مکان میں ہی رہو حتی کہ تمہاری عدت پوری ہو جائے۔‘‘ چنانچہ میں نے عدت کے ایام اسی سابقہ مکان میں ہی بسر کئے۔   [ابوداؤد ،طلاق:۲۳۰۰]

                اس حدیث کی روشنی میں بیوہ کواپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارنی چاہیے لیکن بعض اوقات عدت گزارنے والی عورت میں یااس گھر کے متعلق کوئی اضطراری حالت پیداہوجاتی ہے: مثلاً: جان ومال کاخوف ،عزت وآبرو کا ڈر، مکان کاانہدام ،گردوپیش میں فاسق ،فاجرلوگوں کارہنا جہاں اس کی جان، عزت، آبرو کوخطرہ لاحق ہوتوایسے حالات میں وہاں سے منتقل ہوناجائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوسری رہائش میں منتقل ہوکروہ ان احکام کی پابندی کرے جن کاذکرپہلے ہوچکاہے ۔

 صورت مسئولہ میں اگرواقعی ایسے ہی حالات ہیں، جیسا کہ ذکرکیاگیا ہے توبیوہ کواپنے والدین کے ہاں ایام عدت گزارنے کی اجازت ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کسی کوطاقت سے بڑھ کر زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے‘‘۔      [۲/بقرہ :۲۸۶]

ایسے حالات میں بیوہ کااپنے خاوند کے گھر قیام رکھنااسے مشقت میں ڈالنا ہے، تاہم بہتر ہے کہ اس کی والدہ یابھائی یاکوئی اور محرم بیوہ کے ساتھ خاوند کے گھر میں رہائش رکھ لے تاکہ نصوص کی خلاف ورزی نہ ہو اگرایساممکن نہ ہو تو اسے وہاں سے اپنے میکے منتقل ہونے پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ محقق ابن قدامہ نے اس موضوع پرتفصیل سے لکھا ہے ۔     [مغنی ابن قدامہ ۱۱/۲۹۲]

عر ب شیوخ نے بھی ایسے حالات میں بیوہ کواپنے خاوند کے گھر سے باہر عدت کے ایام پورے کرنے کی اجازت دی ہے۔(فتاویٰ نکاح و طلاق،۴۷۴)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:304

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ