سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(282) جائیداد میں کلالہ کا حصہ

  • 12273
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1586

سوال

(282) جائیداد میں کلالہ کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لالہ موسیٰ سے بواسطہ ذیشان خریداری نمبر:۵۶۹۵قاضی محمد خاں کا ایک سوال اہل حدیث مجریہ ۵ستمبر ۲۰۰۳ شمارہ نمبر ۳۶ میں شائع ہواتھا کہ میری بیوی فوت ہوگئی ہے، اس کے نہ والدین زندہ ہیں نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے۔ صرف اس کاخاوند اورتین حقیقی بہنیں زندہ ہیں، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی ،ہم نے اس کے جواب میں لکھا تھاکہ صورت مسئولہ کلالہ کی ایک صورت ہے چونکہ اولاد نہیں، اس لئے خاوند کواس کی منقولہ اورغیرمنقولہ جائیداد سے نصف ملے گا اورتین حقیقی بہنوں کوکل جائیداد سے 2/3دیاجائے گا۔تقسیم میں سہولت کے پیش نظر ہم نے لکھا تھا کہ کل جائیداد کے چھ حصے کرلئے جائیں ،نصف، یعنی تین حصے خاوند کو اور دوتہائی یعنی چار حصے تینوں بہنوں کودئیے جائیں چونکہ چھ حصوں سے ورثا کوملنے والا سہام زیادہ ہیں، اس لئے یہاں عول ہوگا اس لئے کل جائیداد کے چھ حصے کے بجائے سات حصے کرلئے جائیں۔ ان سات حصوں میں سے تین خاوند کوباقی چار بہنوں کومل جائیں گے ۔آخر میں یہ مشورہ بھی دیاتھا کہ جائیداد کی تفصیلی تقسیم محکمہ مال، یعنی پٹواری کے ذمے ہے۔ وراثت کے فتویٰ میں صرف حصوں کاتعیین کیاجاتا ہے تقسیم کاعمل مفتی کے ذمے نہیں ہے۔ ادارہ ’’اہل حدیث ‘‘کی وساطت سے ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں قاضی محمدخان لکھتے ہیں کہ ’’میرے حق وراثت کے سوال پرجومشورہ دیا گیا ۔وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی مخالفت کرتا ہے، نیزیہ مسئلہ بڑی اہمیت کاحامل ہے اس میں بڑی محنت درکار ہے۔ اسے عول یاپٹواریوں کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا ہے ۔الیٰ آخرہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے سوال کاجواب قرآن پاک کی آیات کے حوالہ سے دیاتھا ہمارے نزدیک ہرمسئلہ ہی بڑی اہمیت کاحامل ہوتا ہے، اس لئے سوالات کے جواب میں محنت بھی کی جاتی ہے اوراحساس ذمہ داری بھی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک مفتی کامنصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں رہتے ہوئے سوالات کے جواب دیتا ہے۔ اس مختصر وضاحت کے بعد کچھ ملاحظات پیش خدمت ہیں :

1۔  پرچہ ’’اہل حدیث‘‘ کوئی کاروباری میگزین نہیں ہے کہ اس سے دنیا وی منفعت ہوتی ہو،بلکہ دنیاوی لحاظ سے دینی جرائد خسارے میں رہتے ہیں، البتہ دینی لحاظ سے یہ مفاد ضرورہوتا ہے کہ ان سے دین اسلام کی سربلندی اوراسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت مقصودہوتی ہے ۔شاید سوالات کے جواب کے لئے خریداری نمبر کی پابندی بھی اس لئے ہے کہ اس کے خریدار زیادہ ہوں لیکن یہ بات اخلاقی لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ دوسروں کے خریداری نمبر کاسہارا لے کر سوالات پوچھے جائیں ۔ویسے بھی سوال وجواب کے کا لم میں خریدار یاغیرخریدار کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے جواب دیے جاتے ہیں۔

2۔  عول کاسہارامجبوراًلیاجاتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے عول کاحکم دیا تھا ۔ان کے زمانے میں ایک ایسی صورت واقع ہوئی کہ اصحاب الفروض کے سہام ترکہ کی اکائی سے زیادہ تھے، جیسا کہ موجودہ صورت مسئولہ میں ہے ۔آپ نے کبارصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ نے عول کامشورہ دیا، جس سے صحابہ نے اتفاق فرمایا، ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہم جیسے مجتہدین صحابہ کرام شامل تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عول کے مسئلہ میں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے متفقہ مسئلہ میں اختلاف رائے کیا ۔اگرحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی مخالفت مشہور نہ ہوتی توعول کے مسئلہ پراجماع قطعی کاحکم لگادینا یقینی ہوجاتا ۔حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے عول کی ضرورت کوبایں الفاظ بیان فرمایا: ’’مجھے قرآن کریم سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ مقرر حصہ لینے والوں میں سے کون قابل تقدیم ہے، کون قابل تاخیر تاکہ مقدم کوپہلے اورمؤخر کوبعدمیں کر دیا جائے، اس لئے انہوں نے تمام اصحاب الفروض کے درمیان یکسانیت پیداکرنے کے لئے عول کاطریقہ جاری فرمایا۔حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کے نزدیک خاوند قوی حق دار ہے، اس لئے اسے پورا پورا حصہ دیا جائے اوربہنیں کمزور حصہ دار ہیں ان کے حصوں میں کمی کی جائے ۔صورت مسئولہ میں مسئلہ چھ سے بنتا ہے لیکن سہام سات ہیں ۔ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کے نزدیک خاوند کوکل جائیداد سے نصف، یعنی 1/2دے دیاجائے اور بہنوں کے چار حصوں سے ایک حصہ کم کرکے انہیں صرف تین حصے دیے جائیں۔ اس طرح عول کی ضرورت نہیں رہتی ۔لیکن حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کا موقف، اس لئے درست نہیں ہے کہ تمام مقرر کردہ حصہ لینے والے حقدار جوکسی درجہ میں جمع ہوں ازروئے استحقاق برابر ہیں اورکسی ایک کودوسرے پرترجیح نہیں دی جاسکتی۔چونکہ سب کااستحقاق بذریعہ قرآن کریم نازل ہوا ہے، لہٰذا سب کااستحقاق برابر ہوگا اورہرشخص اپنااپنا پوراحصہ لے گا اوراگر سب حصص موجود نہ ہوں، جیسا کہ موجودہ صورت میں ہے توسب کے حصوں میں برابر کمی کی جائے گی اورعول کے ذریعے سے جومخرج بڑھایا جاتا ہے اس کی وجہ سے جو نقصان عائد ہووہ تمام مستحقین پر بقدر تناسب پھیلا دیاجائے ۔یہی راجح ہے اور اسی پرامت کاعمل ہے، البتہ شیعہ حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں اور حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کاساتھ چھوڑدیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگرجملہ حصص کی میزان جائیداد کی اکائی سے متجاوزکرجائے تو اس اضافہ کوبیٹیوں اوربہنوں کے حصص سے منہاکردیتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ صورت مسئولہ میں قاضی محمدخان کوبھی اس لئے اختلاف ہے کہ خاوند ہونے کی حیثیت سے ان کے حصہ میں عول کی وجہ سے معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے، دلوں کے حالات تواللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بظاہر قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ باقی پٹواریوں کاحوالہ اس لئے دیا گیا کہ جائیداد اگرزمین کی شکل میں ہو توہر وارث کوکتنی کنال یامرلے یاکتنی سرسائیاں ملیں گیں اس تقسیم کی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہے کیونکہ اس نے علم وراثت پڑھا ہے محکمہ مال کے کورس نہیں کئے ہیں، لہٰذاہم نے فتویٰ میں جومشورہ دیا ہے اس میں اللہ کی کسی حد کو نہیں توڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:296

تبصرے