السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ اہل حدیث شمارہ نمبر: 24کے احکام وسائل میں آپ نے لکھا ہے کہ پوتا اپنے دادا کی جائیداد سے محروم رہتا ہے۔ آپ کا جواب شکوک شبہات کاباعث ہے۔ یعنی آدمی کابیٹا فوت ہو جائے۔ فوت ہونے والے کی چھوٹی اولاد بھی ہو۔ ایسے حالات میں بیوہ اوریتیم اولاد کووراثت سے محروم کرنا کہاں کاانصاف ہے؟ اسلام کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں ،لیکن یہاں اسلام نے یتیموں اوربیواؤں کے حق کوکیوں ساقط کردیا ہے جبکہ دوسرے مذاہب یتیم پوتوں کوحق دیتے ہیں اورانہیں کسی صورت میں محروم نہیں کرتے۔ مہربانی فرماکر مفصل جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بندہ مسلم کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بجالاتا ہے اورسمع واطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودکواسلام کے حوالے کردیتا ہے۔ دین اسلام دیگر ادیان کے مقابلہ میں، اس لئے بلند وبرتر ہے کہ اس میں اعتدال کاحسن ہے۔ درج ذیل سوال میں سطحی جذبات کے پیش نظر اسلام کی حقانیت کوچیلنج کیاگیا ہے، حالانکہ جس قدر یتیموں کے حقوق کاخیال دین اسلام کی تعلیمات میں ہے دیگر ادیان میں اس کاعشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس تمہیدی گزارش کے بعد واضح ہوکہ اسلام نے میراث کے سلسلہ میں اقربا کے فقرواحتیاج اوران کی بے چارگی کوبنیاد نہیں بنایا؟ جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق سوال میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ذمہ داری کوبنیاد بنایا گیا ہے۔ اگراس سلسلہ میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونابنیاد ہوتاتوارشاد باری تعالیٰ بایں الفاظ نہ ہوتا کہ ’’مذکر کے لئے دو مونث کے برابرحصہ ہے۔‘‘ بلکہ اس طرح ہوتا کہ مونث کے لئے دومذکر کے برابرحصہ ہے کیونکہ لڑکے کے مقابلہ میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ حاجت مند ہے اوراس بے چارگی کے سبب میت کے مال سے اسے زیادہ حقدار قراردیا جاناچاہیے تھا۔اسی طرح شوہر کوزوجہ کی اولاد نہ ہونے پرنصف جائیداد کامستحق قرار دیاگیا ہے جبکہ زوجہ کوشوہر کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی کاحقدار ٹھہرایاگیا ہے، حالانکہ حاجت مندی ،بے چارگی ، عدم کسب معاش اورنسوانی وصف کاتقاضاتھا کہ شوہر کے لئے ایک چوتھائی اوربیوی کے لئے نصف مقرر ہوتا ۔ان حقائق کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندہونایاعدم اکتساب یابے چارگی قطعاًملحوظ نہیں ہے ۔موجودہ دور میں وراثت کے متعلق جس مسئلہ کوزیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد موجودہونے کے باوجود یتیم پوتے ،پوتی ،نواسے اورنواسی کی میراث کا مسئلہ ہے، یعنی دادا یانانا کے انتقال پر اس کے اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے اس کے مرحوم بیٹے یابیٹی کی اولاد دادا یانانا کے ترکہ سے میراث پانے کی مستحق ہے یا نہیں، اس مسئلہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پراگراس کاکوئی بیٹا موجود ہوتواس کے دوسرے مرحوم بیٹے یابیٹی کی اولاد کوکوئی حصہ نہیں ملے گا، اس مسئلہ میں نہ صرف اہل سنت کے مشہور فقہی مذاہب ،حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ اور حنبلیہ، نیزشیعہ، امامیہ وزیدیہ اورظاہر یہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمۂ فقہا کابھی کوئی قول اس کے خلاف منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستان نے ۱۹۶۱ء میں مارشل لا کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کیاجس کے تحت یہ قانون نافذ کردیا گیا کہ اگرکوئی شخص مرجائے اوراپنے پیچھے ایسے لڑکے یالڑکی کی اولاد کو چھوڑ جائے جواس کی زندگی میں فوت ہوچکا ہوتو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجوگی میں اس حصے کوپانے کی مستحق ہوگی جوان کے باپ یاماں کوملتا اگروہ اس شخص کی وفات کے وقت موجود ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق عظیم اکثریت نے دوٹوک فیصلہ کردیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مذکر کے لئے اس کا حصہ دومونث کے حصہ کے برابر ہے۔‘‘ [۴/النسآء:۱۱]
اس آیت کریمہ میں اولاد، ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کے ہیں ۔جوجنے ہوئے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن ولد کے معنی دوطرح مشتمل ہیں
1۔ ایک حقیقی جوبلاواسطہ جناہوا ہو، یعنی بیٹااور بیٹی۔
2۔ دوسرے مجازی جوکسی واسطہ سے جناہوا ہو، یعنی پوتا اورپوتی ۔
بیٹیوں کی اولاد نواسی اورنواسے اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسہ اورنواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک حقیقی معنی کاوجود ہوگامجازی معنی مراد لیناجائز نہیں ہے، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹایابیٹی کی موجودگی میں پوتا اورپوتی وغیرہ مراد نہیں لیے جاسکیں گے، لہٰذا آیت کریمہ کامطلب یہ ہوا کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتی کاکوئی حق نہیں ہے وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یامرحوم بیٹے سے ،امام جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’امت کے اہل علم کااس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں حقیقی اولاد مراد ہے اورنہ اس میں اختلاف ہے کہ پوتاحقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں داخل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہے کہ اگرحقیقی بیٹا موجود نہ ہوتو مراد بیٹوں کی اولاد سے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لئے ہے اورجب صلبی نہ ہوتوبیٹے کی اولادکوشامل ہے ۔‘‘ [احکام القرآن ،ص: ۶۹،ج ۲]
پھراحادیث میں ہے کہ وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جوبچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کے لئے ہے ۔ [صحیح بخاری ، الفرائض: ۶۷۳۲]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹاپوتے سے قریب تر ہے، اس لئے پوتے کے مقابلے میں بیٹاوارث ہوگا ۔
شریعت نے وراثت کے سلسلہ میں اقرب فالاقرب کے قانون کوپسند فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہرایک کے لئے ہم نے موالی بنائے ہیں، اس ترکہ کے جسے والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ۔‘‘ [۴/ النسآء : ۳۳]
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دوروالا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا ۔
البتہ اسلام نے اس مسئلہ کاحل بایں طور پر فرمایاہے کہ مرنے والے کوچاہیے کہ وہ اپنے یتیم پوتے ،پوتیوں، نواسے، نواسیوں ودیگر غیروارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکہ سے 1/3کی وصیت کر جائے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑے جارہاہے توموت کے وقت اپنے والدین اورقریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پرفرض ہے ۔ ‘‘ [۲/البقرہ :۱۸۰]
چونکہ حدیث کے مطابق وارث رشتہ دارکے لئے وصیت جائز نہیں ہے، اس لئے والدین کے لئے وصیت جائز نہیں ہے، البتہ دیگر رشتہ دار جو محتاج اورلاچار ہیں ان کے لئے وصیت کرناضروری ہے اگرکوئی یتیم پوتے ،پوتیوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگرغیروارث افراد یا کسی خیراتی ادارہ کے لئے وصیت کرتا ہے توحاکم وقت کواختیار ہوناچاہیے کہ وہ حاجت مند یتیم پوتے، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کونافذ قرار دے، ہاں، اگردادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے ،پوتیوں کوبذریعہ ہبہ ترکہ کاکچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہو تواس کی وصیت کالعدم قرار دینے کے بجائے اس کو نافذ کردیاجائے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب