السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں دوبیویاں، چھ لڑکے اورسات لڑکیاں موجود ہیں ،اس نے اپنی زندگی میں جائیداد لگوادی جبکہ کچھ لڑکے اس کی زندگی میں برسرروزگار تھے ،انہیں کچھ نہیں دیاگیا ، باضابطہ طورپر انہیں الگ نہیں کیاگیا تھا برسرروز گار بیٹوں نے کچھ جائیداد ذاتی طور پربنائی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر چند ایک سوالات کاجواب مطلوب ہے :
٭ مرحوم کی دونوں بیویاں اوراولاد کے اس کے ترکہ سے کیاحصص ہوں گے ۔
٭ کیاباپ کواپنی زندگی میں کسی بیٹے کوکچھ دینے کااختیار ہے اگر ہے تواس کاضابطہ کیاہے ۔
٭ کیاباپ اپنے کسی نافرمان بیٹے کواپنی جائیداد سے عاق کرسکتا ہے۔
٭ کیاباپ کے فیصلے کواس کے مرنے کے بعدکالعدم کیاجاسکتا ہے یانہیں۔
٭ اگرباپ کی زندگی میں اس کے بچے کاروبار کرتے ہیں توان کی کمائی سے حاصل شدہ جائیدا د کی کیاحیثیت ہوگی ،کیا اسے باپ کے ترکے میں شمار کیاجائے گا یااسے اس کے ترکے سے الگ رکھاجائے گا، کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا جواب مطلوب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مندرجہ بالاسوالات کے جوابات بالترتیب حسب ذیل ہیں:
٭ دونوں بیویوں کواس کی منقولہ غیر منقولہ جائیداد سے آٹھواں حصہ ملے گا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر اولاد ہوتوبیویوں کے لئے اس کے ترکے سے 1/8ہے ۔‘‘ [۴/النسآء:۱۲]
بیویوں کو حصہ دے کرجوباقی بچے اسے اولاد میں اس طرح تقسیم کردیاجائے کہ ایک لڑکے کودولڑکیوں کے برابر حصہ ملے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ اولا د کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کاحصہ دوعورتوں کے برابر ہوگا۔‘‘ [۴/النسآء:۱۱]
سہولت کے پیش نظر مرحوم کی منقولہ اورغیرمنقولہ جائیداد کے 152حصے کرلئے جائیں، ان میں سے 152کا1/8یعنی 19حصے دونوں بیویوں میں تقسیم کر دیے جائیں اورباقی 133حصے اس طرح تقسیم ہوں گے کہ 14,14حصے فی لڑکا اور7,7حصے فی لڑکی کو دیے جائیں، یعنی ایک لڑکے کو ایک لڑکی کے مقابلہ میں دوگناحصہ ملے۔
دونوں بیویوں کے حصے :19۔
چھ لڑکوں کے حصے: 14×84=6۔
سات لڑکیوں کے حصے: 7×49=7۔
میزان :152کل جائیدا د۔
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کودنیا میں خودمختار بناکربھیجا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کوجس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے ۔مال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے، اس میں بھی تصرف کرنے کا پورا پوراحق ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ’’ہرمالک اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے ،وہ اس حق کو جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔‘‘ [بیہقی ،ص :۱۷۸، ج ۶]
(ا) اس تصرف کاضابطہ یہ ہے کہ یہ تصرف کسی ناجائز اورحرام کے لئے نہ ہو ۔
(ب) جائز تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کومحروم کرنامقصودنہ ہو۔
(ج) اگریہ تصرف بطور ہبہ ہے تونرینہ اولاد کے ساتھ مساویانہ سلوک پرمبنی ہو۔
(د) اگریہ تصرف بطور وصیت عمل میں آئے توکسی صورت میں 1/3سے زیادہ نہ ہو اورنہ ہی کسی شرعی وارث کے لئے وصیت کی گئی ہو۔
صورت مسئولہ میں باپ کوچاہیے تھا کہ جائیداد دیتے وقت تمام اولاد بیٹوں اوربیٹیوں کوبرابر برابرجائیداد دیتا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کواس کے والد نے ایک غلام بطور عطیہ دیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس پرگواہ بنانا چاہا تو آپ نے فرمایا: ’’کیاتو نے دوسرے بیٹوں کوبھی اس قدر عطیات دئیے ہیں۔‘‘ اس نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا: ’’اس عطیہ سے رجوع کرلواللہ تعالیٰ سے ڈرواوراولاد میں عد ل و انصاف کیاکرو۔‘‘ [صحیح بخاری، الھبہ :۲۵۸۶]
ایک روایت میں ہے کہ ’’اگر میں عطیہ کے سلسلہ میں برتری دینا چاہتا توعورتوں کوبرتری دیتا۔‘‘ [بیہقی ،ص: ۱۷۷،ج ۶]
اس لئے حدیث کے پیش نظر باپ کایہ اقدام غلط ہے کہ وہ کسی ایک بیٹے کے نام جائیداد لگوادے اوردوسروں کواس سے محروم کردے ۔
٭ انسان کواللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون وراثت کوپامال کرتے ہوئے کسی نافرمان بیٹے کواپنی جائیدا د سے محروم کردے ،اخبارات میں ’’عاق نامہ ‘‘کے اشتہارات اللہ تعالیٰ کے ضابطہ وراثت کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جووالدین اوررشتے دار وں نے چھوڑا ہواور عورتوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جووالدین اوررشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ وہ مال تھوڑاہویازیادہ لیکن اس میں یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے ۔ ‘‘ [۴/ النسآء:۷۱]
اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کوبلاوجہ شرعی وراثت سے محروم نہیں کیاجاسکتا ،احادیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ فرمان نبوی ہے کہ ’’جو کسی کی وراثت ختم کرتا ہے جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت ختم کردیں گے۔‘‘ [شعب الایمان بیہقی، ص: ۱۱۵، ج ۱۴]
اگر بیٹا نافرمان ہے تو وہ اس نافرمانی کی سزا قیامت کے دن اللہ کے ہاں ضرور پائے گا لیکن والد کویہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے ،ایسا کرنے سے انسان کی عاقبت کے خراب ہونے کااندیشہ ہے۔
٭ اگرباپ نے اپنی زندگی میں کوئی غلط فیصلہ کیاہے تواسے مرنے کے بعد توڑا جاسکتا ہے بلکہ اسے کا لعدم کرکے اس کی اصلاح کرناضروری ہے، یہ کوئی پختہ لکیر نہیں ہے جسے مٹانا کبیر ہ گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہاں جوشخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یاحق تلفی کااندیشہ رکھتا ہواگر وہ آپس میں ان کی اصلاح کردے ،تواس پرکوئی گناہ نہیں ۔‘‘ [۲/البقرہ:۱۸۲]
خودر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے غلط فیصلوں کی ان کے مرنے کے بعد اصلاح فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری صحابی کی کل جائیداد چھ غلام تھے ،اس نے وصیت کے ذریعے ان سب کوآزاد کر دیا، اس کے مرنے اورکفن ودفن کے بعد اس کے شرعی ورثا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحقیقت حال سے آپ کوآگاہ کیا تو آپ نے مرنے والے کو سخت برا بھلا کہا، پھر اس کی وصیت کوکالعدم کرتے ہوئے، ان چھ غلاموں کے متعلق قرعہ اندازی کی جنہیں بذریعہ وصیت آزاد کردیا تھا ،6کا1/3یعنی دوغلام آزاد کردیے اورباقی چارورثا کے حوالے کرکے ان کے نقصان کی تلافی کر دی۔ [صحیح مسلم ، الایمان : ۱۶۶۸]
دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس شخص کے متعلق فرمایا: ’’اگرہمیں اس کی حرکت کاپہلے علم ہوجاتا توہم اس کی نماز جنازہ ہی نہ پڑھتے۔‘‘ [مسندامام احمد، ص: ۴۴۳، ج ۴]
بلکہ ایک روایت میں ہے کہ ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے ۔ [ابوداؤد، العتق :۳۹۵۸]
ان احادیث کے پیش نظر یہ فیصلہ کیاجاتا ہے کہ باپ نے اگرزندگی میں حقوق العباد کے سلسلہ میں کوئی غلط اقدام کیا تھا تواس کے مرنے کے بعد کالعدم کیاجاسکتا ہے اوراس میں مناسب ترمیم کر کے کتاب وسنت کے مطابق کرناضروری ہے۔ مرحوم کے ساتھ ہمدردی کابھی یہی تقاضا ہے کہ اس کے غلط اقدام کوبرقرار رکھ کراس کے بوجھ کوزیادہ وزنی نہ بنائیں بلکہ اس کی اصلاح کرکے اس کی عاقبت کوسنوارنے کی فکر کی جائے ۔
٭ اولاد کی دوحیثیتیں ہیں ایک یہ ہے کہ وہ باپ کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک ہوتی اور اس کے ساتھ ہی ایام زندگی گزارتی ہے اس صورت میں باپ کے پاس رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شمار ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے: ’’تواورتیرامال سب تیرے باپ کے لئے ہے۔‘‘ [مسند امام احمد، ص۲۰۴ ج۲]
ایسے حالات میں کسی بیٹے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ چالوکاروبار سے کچھ رقم پس انداز کرکے اپنی الگ جائیدا د بنالے ، اگرایسا کیاگیا ہے توایسی جائیدا د کوباپ کی جائیداد سمجھتے ہوئے اس کے ترکے میں شمار کرنا ہو گا۔ ہاں، اگراولادکاحق ملکیت تسلیم کرلیاجائے تواولاد میں کسی کوالگ جائیداد بنا نے میں کوئی حرج نہیں ہے یاکوئی ملازمت پیشہ بیٹا اپنے باپ سے کہہ دے کہ میری اس رقم سے آپ نے میرے لئے کوئی پلاٹ یامکان خریدنا ہے، ایسے حالات میں اس کی خریدی ہوئی جائیداد کوبیٹے کی جائیداد سمجھاجائے گا اور اسے باپ کے ترکے میں شامل نہیں کیاجائے گا۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگرکسی بیٹے نے قرض وغیرہ پکڑکرپراپرٹی خریدی یامکان بنایا ہے تومکان یاپلاٹ کوباپ کے ترکے میں شامل کرتے وقت اس قرضہ کو مشترکہ جائیداد سے منہاکرناہوگا ۔اولاد کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ کوئی بیٹاشادی شدہ ہے باپ نے باضابطہ طورپر اسے الگ کردیا ہے اب وہ خودمحنت کرتا ہے اوراپنے گھرکانظام بھی خود چلاتا ہے باپ کے ذمے اس کاکوئی بوجھ نہیں ہے ایسی صورت میں اگروہ بیٹا کوئی مکان یاپلاٹ یاجائیداد بناتاہے تواسے باپ کے ترکہ میں شمار نہیں کیاجائے گا کیونکہ اس کاالگ حق ملکیت تسلیم کرلیاگیا ہے، ایسے حالات میں باپ اس کے لین دین کابھی ذمہ دار نہیں ہے۔
آخر میں ہم اس بات کی وضاحت کرناضروری سمجھتے ہیں کہ حقوق العباد کامعاملہ بہت ہی نازک ہے۔ قیامت کے دن اس کی معافی نہیں ہوگی ،اپنی نیکیاں دے کر اور دوسروں کی برائیاں اپنے کھاتے میں ڈال کراس کی تلافی کی جائے گی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم قیامت کے دن انصاف پرمبنی ترازو قائم کریں گے اس بنا پر کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہوگی اور اگرکسی کا، رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم ہواتو وہ بھی سامنے لایا جائے گا اور ہم حساب لینے کے لئے کافی ہیں ۔‘‘ [۲۱/الانبیاء :۴۷]
یہ دنیا کامال ومتاع دنیامیں رہ جائے گا، اس کی خاطر اپنی آخرت کوبربادنہ کیاجائے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب