السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک حقیقی چچا ہے جس کی اولاد نہیں ،اس کی سات بہنیں ہیں جوہماری پھوپھیاں ہیں۔ ہمارے چچا ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں اورہم اس کی ہرطرح سے خدمت کرتے ہیں چچا نے تمام رقبہ جواس کے نام تھا میرے نام لگوادیا ہے جس کے لئے ہم تقریباً چالیس ہزار روپیہ خرچ کرچکے ہیں۔ ہماری پھوپھیوں نے بھی اپنے بھائی سے ملنے والاحصہ زبانی طورپر مجھے دے دیا ہے، اس کی شرعی حقیقت واضح کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی کے فوت ہو نے کے وقت جو رشتہ دار زندہ ہوں انہیں مرحوم کی جائیداد سے حصہ دیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ وراثت کے اسباب بھی موجود ہوں اور وہاں کوئی مانع، یعنی رکاوٹ نہ ہو۔ صورت مسئولہ میں کسی کو علم نہیں ہے کہ کس نے پہلے موت کا لقمہ بننا ہے، اس لئے موجودہ صورت حال کے پیش نظر بطور وراثت جائیداد تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر چچا پہلے فوت ہو جائے تو اس کے حقیقی ورثا سات بہنیں اور سائل، یعنی حقیقی بھتیجا ہے۔ اگر پھوپھیوں نے برضا و رغبت کسی قسم کے دبائو کے بغیر اپنا حصہ سائل کو دیدیا ہے جو چچا کے فوت ہونے کی صورت میں انہیں ملنا تھا تو اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن معاشرتی طور پر ہم اسے بہتر نہیں سمجھتے کیونکہ پھوپھیوں کی اولاد بھی ہو گی۔ ان کا پیٹ کاٹنا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے، اس لئے جب انہیں حقیقتاً حصہ مل جائے تو پھر انہیں تصرف کرنے کاپورا پورا اختیار ہے۔ [واللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب