سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ

  • 12267
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1101

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم چھ بھائی اورچاربہنیں ہیں،ایک بہن اوردوبھائیوں کاذہنی توازن درست نہیں ہے۔ ہمارے والد فوت ہوچکے ہیں جبکہ والدہ بقید حیات ہیں ۔واضح رہے کہ ہماراایک بھائی والد مرحوم کی زندگی میں فوت ہوچکا تھا، اس کے تین بچے ہیں۔ قرآن وحدیث کے مطابق والد مرحوم کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی موجودہ جائیداد کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ،ایک بیٹاوالد کی زندگی میں اپناالگ کاروبار کرتا تھا، اس نے بیوی کازیوربیچ کرایک مکان خریدا جس کی موجودہ مالیت 35لاکھ ہے ،اسے والد نے ایک دکان بھی دی اس کی مالیت تقریباًساٹھ لاکھ ہے ۔دوبیٹے والد کے ساتھ کاروبار کرتے تھے، ایک بیٹے کو35لاکھ کامکان لے کردیا جووالد کی زندگی میں فوت ہو گیا، دوسرے بیٹے کوساڑھے آٹھ لاکھ کامکان دیا جس کی موجودہ مالیت 30لاکھ ہے۔ والد مرحوم نے اپنی زندگی میں دودکانیں اورایک گودام مزیدخریدا تھا۔ ہماری والدہ نے ایک مکان کے دوحصے کرکے آدھا حصہ ایک بیٹے کودوسرا نصف مرحوم بیٹے کی اولادکودے دیا ۔اس کی مالیت بھی 80لاکھ ہے اوردوسری دکان ایک دوسرے بیٹے کو دے دی جس کی مالیت 45لاکھ ہے اس کے پاس 30لاکھ مالیت کامکان بھی موجودہے۔والدہ نے ایک پلاٹ جووالد کی ملکیت تھا اپنے تیسرے بیٹے کودے دیا جس کی مالیت 2لاکھ ہے والد کاخریداہوا گودام 28لاکھ میں فروخت ہوا ۔اس سے پانچ لاکھ والد مرحوم کاقرضہ اتارا اور7-1/2 لاکھ اپنی بہو کودے دیاکیونکہ بیٹے کاذہنی توازن درست نہیں، باقی 15-1/2لاکھ اپنی بیٹی کودینے کاارادہ ہے، ہمارے والد کے ترکہ کی تقسیم شریعت کے مطابق کیسے ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تقسیم جائیداد سے قبل چند ایک باتوں کا بتاناضروری ہے ۔

جوبیٹا والد کی زندگی میں فوت ہوا ہے اسے اور اس کی اولاد کوباپ کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، اس لئے والد کاترکہ پانچ بیٹوں اور چاربیٹیوں میں تقسیم ہوگا ۔

2۔  والد کواپنی زندگی میں کمی پیشی کے ساتھ جائیداد دینے کی شرعاًممانعت ہے، اس لئے اس نے اپنی زندگی میں جس کوجوجائیداد دی ہے وہ کالعدم ہے ۔سب جائیداد کواکٹھا کرکے ازسرنوتقسیم کرناہو گا۔ یادرہے کہ والد نے اپنے بیٹے کومشترکہ کاروبار سے 35لاکھ روپے کاجومکان دیا تھا اوروہ اس کی زندگی میں فوت ہوگیامذکورہ مکان کی مالیت متروکہ جائیدا د میں شمارہوگی ۔

3۔  والدہ کوبھی یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ اپنے مرحوم شوہر کے ترکہ کواپنی مرضی سے تقسیم کرے، اس لئے اس کی تقسیم بھی کالعدم ہے۔حتی کہ جونصف دکان جس کی مالیت 80لاکھ ہے۔ اپنے مرحوم بیٹے کی اولاد کودی ہے وہ بھی باپ کے ترکہ میں شامل ہوگی ۔

4۔  جس بیٹے نے اپنی بیوی کازیوربیچ کر مکان خریدا جس کی موجودہ مالیت 35لاکھ روپے ہے، وہ باپ کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا کیونکہ وہ بیٹا والدین سے الگ تھااوراپناعلیحدہ کاروبار کرتا تھا اوراس نے اپنی بیوی کے زیورات بیچ کرمکان خریداتھا۔

5۔    نقدرقم 15,50,000(ساڑھے پندرہ لاکھ) جو والدہ نے اپنی بیٹیوں کودینے کے ارادہ سے اپنے پاس رکھی ہے، اسے بھی باپ کے ترکہ میں جمع کیاجائے گا۔ کل ترکہ سے 5لاکھ منہاکیا جائے گا جوقرضے کی حد میں قرض خواہ کودیا گیاہے۔ اس طرح باپ کاقابل تقسیم ترکہ چارکروڑ روپے ہے۔ بیوہ کا1/8ہے جوکل جائیداد سے آٹھواں حصہ پچاس لاکھ بنتا ہے۔ باقی ساڑھے تین کروڑ اولاد میں اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ ایک لڑکے کولڑکی سے دگنا ملے گا۔ چونکہ پانچ لڑکے اورچارلڑکیاں ہیں، اس لئے بیوی کاحصہ نکالنے کے بعد باقی ترکہ کوچودہ حصوں میں کیاتوایک حصہ پچیس لاکھ ہے جوایک لڑکی کاحصہ ہے ۔اس سے دگنا حصہ، یعنی پچاس لاکھ ایک لڑکے کوملے گا۔ تفصیل اس طرح ہوگی:

بیوی کاحصہ :پچاس لاکھ روپے ۔

چارلڑکیوں کاحصہ :ایک کروڑ فی لڑکی پچیس لاکھ روپے۔

پانچ لڑکوں کاحصہ :دوکروڑ پچاس لاکھ روپے فی لڑکا پچاس لاکھ روپے۔

میزان :4کروڑروپے ۔

نوٹ: مرحوم نے اپنے بیٹے مرحوم کی اولاد کے متعلق کوئی وصیت نہیں کی ہے، ہمدردی کے طورپر مذکورہ ورثا اگران یتیم بچوں کوکچھ دیناچاہیں تواس پرکوئی پابندی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کرناضروری ہے ۔     [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:288

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ