السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کے تین بیٹے اورایک بیٹی ہے، میاں بیوی خودبھی حیات ہیں شرعی اعتبار سے جائیداد کی تقسیم کیسے ہو گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کس کی جائیداد کوتقسیم کرنا ہے، پھرزندگی میں یامرنے کے بعد جائیداد تقسیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ وراثت کے سوالات خوب واضح کرکے لکھا کریں، زندگی میں انسان اپنی جائیداد کے متعلق خودمختار ہے۔ اپنی ضروریات کے لئے جتنی جائیداد چاہیے صرف کردے اس سے کوئی باز پرس نہ ہو گی۔ البتہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنے کے لئے مساوات کوپیش نظررکھنا ہو گا۔ اس مساوات میں مردوزن کی بھی تفریق نہیں ہے، یعنی لڑکوں اور لڑکیوں میں برابربرابر تقسیم ہوگی۔ صورت مسئولہ میں بیوی کو صوابدیدی حصہ دے کرباقی جائیداد کوچارحصوں میں تقسیم کردیا جائے، تین لڑکوں اور ایک لڑکی کوایک حصہ دے دیا جائے ،اگر بعداز موت تقسیم جائیداد کامسئلہ ہے تواس کی دوصورتیں ہیں :
(الف) باپ کی وفات کے وقت اگرمذکورہ اولادزندہ ہوتوان میں جائیداد تقسیم اس طرح ہوگی کہ بیوی کاآٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سات حصے اولاد میں یوں تقسیم کردیے جائیں کہ لڑکے کودودوحصے اورلڑکی کوایک حصہ دیاجائے ،یعنی کل جائیداد کوآٹھ حصوں میں تقسیم کرلیاجائے ایک حصہ بیوہ کے لئے دودوحصے فی لڑکے اورایک حصہ لڑکی کودے دیاجائے۔
(ب) ماں کی وفات کے وقت اگرمذکورہ اولاد زندہ ہوتوجائیداد تقسیم اس طرح ہوگی کہ خاوند کا چوتھا حصہ نکالنے کے بعد باقی تین حصے اولاد میں اس طرح تقسیم کر دیے جائیں کہ لڑکے کولڑکی کے حصہ سے دوگناملے ۔صورت مسئولہ میں سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل 28حصے کرلئے جائیں ان کا1/4یعنی سات حصے خاوند کو، پھر چھ چھ حصے ہرلڑکے کواورتین حصے لڑکی کو دیے جائیں۔
پہلی تقسیم : 8/ بیوہ(1) لڑکا (2) لڑکا(2) لڑکا(2) لڑکی (1)8=
دوسری تقسیم:8/ خاوند (7) لڑکا (6) لڑکا (6) لڑکا(6) لڑکی (3)= 28 [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب