السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگروالدین اپنی اولاد کوکسی جائیداد کے متعلق وصیت کرجائیں اوراس میں بے انصافی اورحق تلفی کی گئی ہو، اولادنافرمانی سے بچنے کے لئے اسے قبول کرلے تو کیا جن بچوں پرزیادتی ہوئی ہے وہ بذریعہ عدالت یا پنچائت اس کی تلافی کامطالبہ کرسکتے ہیں ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے ہاں عام طورپر وصیت کے متعلق افراط وتفریط سے کام لیاجاتا ہے۔ اس سلسلہ میں بیشتراوقات یہ کوتاہی دیکھنے میں آتی ہے کہ جو چیزیں وصیت کے قابل ہوتی ہیں انہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’ایک مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی قابل وصیت کام کے متعلق وصیت کرناچاہتا ہو، پھر دورات بھی اس کے بغیر گزار دے، یعنی اس کے پاس ہروقت وصیت لکھی ہوناچاہیے۔‘‘ [صحیح بخاری ،الوصیۃ:۲۷۳۸]
چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہر وقت اپنی تحریر ی وصیت اپنے پاس رکھاکرتے تھے اوروصیت کے متعلق افراط بایں طورپر کیاجاتا ہے کہ جن ورثا کے لئے وصیت ناجائزہوتی ہے ان کے لئے وصیت کابندوبست کردیاجاتا ہے یاجن کے لئے وصیت کرناجائز ہے ان کے لئے شریعت کی قائم کردہ حد سے زیادہ وصیت کردی جاتی ہے یاپھر وصیت بے انصافی اورظلم پرمبنی ہوتی ہے۔ پھرلواحقین اس قسم کی ظلم پرمبنی وصیت کوایسی پختہ لکیر خیال کرتے ہیں جسے مٹانا یااس میں ترمیم کرنا ان کے ہاں کبیرہ گناہ ہے۔ حالانکہ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہاں، جوشخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یاحق تلفی کااندیشہ رکھتاہواگر وہ آپس میں ان کی اصلاح کردے تواس پرکوئی گناہ نہیں ۔‘‘ [البقرہ :۱۸۲]
خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غلط وصایا کی اصلاح فرمائی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری کی کل جائیداد چھ غلام تھے ۔اس نے وصیت کے ذریعہ انہیں آزاد کردیا ۔ اس کے مرنے اورکفن ودفن کے بعد اس کے ورثا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحقیقت حال سے آپ کوآگاہ کیا تو آپ نے مرنے والے کوسخت برا بھلا کہا، پھراس کی وصیت کو کالعدم کرتے ہوئے ان چھ غلاموں کے متعلق قرعہ اندازی کی چھ کاایک تہائی، یعنی دو غلام آزاد کر دیے اورباقی چار ورثا کے حوالے فرماکر ان کے نقصان کی تلافی کردی ۔ [صحیح مسلم ،الایمان : ۱۶۶۸]
دیگر روایات میں اس کے متعلق قول شدید کی وضاحت بھی ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’اگر ہمیں اس کی حرکت کاپہلے علم ہوتا توہم اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۴۴۳،ج ۴]
بلکہ ایک روایت میں ہے کہ ’’ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے۔‘‘ [ابو داؤد، العتق: ۳۹۵۸]
ان احادیث کے پیش نظر ہمیں وصیت کے معاملہ میں احتیاط سے کام لیناچاہیے ۔صورت مسئولہ میں وصیت کے متعلق جوکوتاہی کی گئی ہے لواحقین کوچاہیے کہ پنجائتی سطح پراس کی اصلاح کی جائے تاکہ مرحوم کواخروی بازپرس سے نجات ملے ۔ناجائز وصیت کی اصلاح کرناضروری ہے اوریہ قرآن کریم کاایک اہم ضابطہ ہے۔ جس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب