السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے دوعورتوں سے نکاح کیا لیکن کسی سے اولاد نہیں ہوئی ،سوئے اتفاق سے اس نے دونوں کوطلاق دے دی ، اس کی دکانیں اورمکان ہے اس کاکہنا ہے کہ زندگی بھر میں اس مکان میں رہائش رکھوں گااوردکانوں کاکرایہ وصول کروں گا اس کے بعد کسی مدرسہ یامسجد کے لئے وقف ہوں گی جبکہ اس کے بھائی اوربہنیں بقید حیات ہیں، کیاشرعاًوہ ایساکرسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خاوند کااپنی بیویوں کواس بنا پر طلاق دینا توصحیح نہیں ہے کہ ان سے کوئی اولاد پیدانہیں ہوئی کیونکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ ایسے معاملات سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔اس کازندگی کے بعد کل ترکہ (مکان ودکانات )کاوقف کرنابھی صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے ۔چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں ایک مالدارآدمی ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے توکیامیں دوتہائی مال صدقہ کردوں؟آپ نے فرمایا ’’نہیں‘‘ انہوں نے دوبارہ عرض کیا کہ میں اپنے مال کانصف خیرات کردوں ،آپ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ انہوں نے تیسری مرتبہ عرض کیا تو کہا میں ایک تہائی مال صدقہ کرسکتا ہوں ،آپ نے فرمایا: ’’ہاں، ایک تہائی صدقہ کرسکتے ہو، مگرایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے تیرااپنے ورثا کو غنی چھوڑ جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ توان کومحتاج چھوڑ جائے اوروہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں وہ انہیں دیں یانہ دیں۔‘‘[صحیح بخاری ، حدیث نمبر:۱۲۵۹]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کاش! لوگ وصیت کوثلث سے ربع تک کم کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ثلث بھی بہت زیادہ ہے ۔ [صحیح بخاری ،الوصایا :۲۷۴۳]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب