سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(260) ورثہ سے نواسی کا حصہ

  • 12251
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 730

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی وفات کے وقت اس کے تین بھتیجے اورایک نواسی زندہ تھی۔ وراثت اس کے بھتیجوں کومل گئی، کافی عرصہ بعد اس کی نواسی نے عدالت میں دعویٰ کردیا ہے کہ نانا کی وراثت میں میرا حق ہے۔ قرآن وحدیث کے مطابق بتایا جائے کہ نواسی کوکچھ حصہ ملتا ہے یانہیں؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم کے ضابطۂ وراثت کے مطابق میت کی جائیداد کے سب سے پہلے حقدار وہ ورثا ہیں جن کے حصص قرآن یاحدیث میں مقررہیں جنہیں اصحاب الفروض کہاجاتا ہے۔ ان سے بچاہوا ترکہ عصبات کوملتا ہے۔ صورت مسئولہ میں نواسی نہ تواصحاب الفروض سے ہے اورنہ ہی عصبات میں اس کاشمار ہوتا ہے بلکہ نواسی ذوی الارحام میں شامل ہے جواصحاب الفروض اورعصبات کی عدم موجودگی میں وارث ہوتے ہیں۔ مرحوم کی وفات کے وقت اس کے بھتیجے زندہ تھے ۔ایسے حالات میں اس کی جائیداد کے وہ وارث ہیں کیونکہ ان کاشمار عصبات میں ہوتا ہے۔ ان کی موجودگی میں نواسی محروم ہے، لہٰذااس کاعدالت میں دعویٰ کرنادرست نہیں ہے اورنہ ہی اسے مرحوم کی بیٹی کے قائم مقام سمجھ کر وراثت کاحقدار قراردیاجاسکتا ہے ۔حدیث میں ہے کہ ’’حصے داروں کوحصہ دینے کے بعد میت کے قریبی مذکررشتہ داروارث بنتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کے پیش نظر بھتیجے قریبی مذکر رشتہ دارہیں جووراثت کے حقدارہوں گے نواسی ان میں شامل نہیں ہے، اس بنا پر ناناکی جائیدادسے اس کا کوئی حق نہیں بنتا ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:280

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ