السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے والد محترم وفات پاچکے تھے اوران کے چار بچے، یعنی دوبیٹے اوردوبیٹیاں بقید حیات ہیں، جبکہ ایک بیٹی ان کی وفات سے پہلے فوت ہوچکی تھی۔ ان کی اولاد میں سے دوبیٹے اور دوبیٹیاں شادی شدہ موجود ہیں، کیامرحوم کے ترکہ سے فوت شدہ بہن یا اس کی موجودہ اولاد کوکچھ حصہ ملے گایانہیں ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وراثت کاایک ضابطہ ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دوروالا رشتہ دارمحروم ہوتا ہے، مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتا یابیٹی کی موجودگی میں نواسہ یا نواسی محروم ہوگی۔ صورت مسئولہ میں مرحوم کے دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہی وارث ہوں گی۔ ان کی موجودگی میں والد کی وفات سے پہلے فوت ہونے والی بیٹی یااس کی موجودہ اولاد وارث نہیں ہوگی۔ ہاں، مرحوم وصیت کے ذریعے اپنے نواسے یانواسیوں کودے سکتا تھا اوروہ بھی کل جائیداد سے 1/3تک جائز ہے اس کے علاوہ کسی صورت میں مرحوم کی جائیداد سے انہیں حصہ نہیں مل سکتا ۔مرحوم کی اولاد اگر چاہے توانہیں کچھ دے سکتی ہے یہ ان کی اپنی صوابدیدپرموقوف ہے واضح رہے کہ موجودہ پس ماندگان اس طرح جائیدادتقسیم کریں کہ لڑکے کولڑکی سے دوگنا حصہ ملے ۔سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل چھ حصے کرلئے جائیں ۔دو،دوحصے فی لڑکا اور ایک، ایک فی لڑکی تقسیم کردیا جائے ۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’پوتے کووراثت اس وقت ملتی ہے جب بیٹا موجودنہ ہو۔‘‘پھر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کاقول نقل کیا ہے کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتا ۔ [صحیح بخاری ،کتاب الفرائض ]
اسی طرح بیٹوں اوربیٹیوں کی موجودگی میں کسی بھی بیٹی کی اولاد محروم ہوتی ہے، خواہ وہ بیٹی زندہ ہویامرحوم سے پہلے فوت چکی ہو، لہٰذا نواسیاں نواسے اپنے نانا کی جائیداد کے کسی صورت میں حقدار نہیں ہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب