سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) اندیشہ فساد کے پیش نظر جائیداد کی تقسیم

  • 12240
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 799

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنے بچوں میں اندیشہ فساد کے پیش نظر اپنی جائیداد کو خود تقسیم کردینا چاہتا ہوں ، کیا شرعاً مجھے ایسا کرنے کا حق ہے اگر ایسا کوسکتا ہوں تو یہ تقسیم کس شرح سے ہوگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اللہ تعالیٰ نے انسان کوشریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے خودمختار بنایا ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کوجیسے چاہے استعمال کرے ،مال وجائیداد بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس میں بھی اسے اپنی مرضی سے جائز تصرف کاحق ہے۔ اس بنا پر اپنی زندگی میں اپنے مال کواپنی اولاد میں تقسیم کرسکتا ہے اورجتنا چاہے اپنے لئے بھی رکھ سکتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہر انسان اپنے مال میں تصرف کرنے کازیادہ حق رکھتا ہے۔ وہ اسے جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔‘‘     [بیہقی ،ص: ۷۸،ج ۶]

لیکن زندگی میں یہ تقسیم ضابطہ میراث کے مطابق نہیں ہوگی کیونکہ وراثت غیر اختیاری طورپر حق ملکیت اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہونے کانام ہے جبکہ یہ تقسیم اپنی زندگی اپنے اختیار اورارادہ سے کی جارہی ہے ۔ہاں یہ عطیہ کی ایک شکل ہے جس میں لڑکے اورلڑکی کالحاظ کئے بغیر اپنی اولاد میں مساویا نہ طورپرمال تقسیم کرناہوتا ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم کیا ہے ’’باب الہبۃ للولد‘‘  یعنی اولاد کوہبہ کرنے کا بیان ،امام بخاری رحمہ اللہ  اس کے تحت لکھتے ہیں:

اگرباپ اپنی اولاد میں کسی کوکچھ دیتا ہے تواسے جائز قرارنہیں دیاجائے گا تاآنکہ وہ عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے دوسروں کوبھی اس کے برابر حصہ دے ۔ اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک فرمان بطور دلیل پیش کیا ہے۔

’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیاکرو۔‘‘    [صحیح بخاری ،الھبہ۱۲ ]

اس سلسلہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاحسب ذیل فرمان ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ ’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان برابری کیاکرو۔ اگر (کسی کمزوری کے پیش نظر) میں کسی کوزیادہ چاہتا تو عورتیں اس بات کی زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ دیاجائے۔‘‘     [بیہقی، ص: ۱۷۷،ج ۶]

ارشادنبوی کے پیش نظر زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرتے وقت مساوات کوسامنے رکھناہوگا۔ ہاں، اگر اولاد میں کوئی معذور، اپاہج یامفلوک الحال ہے توباپ کوحق ہے کہ اسے دوسروں سے زیادہ دے، تاہم اس کے لئے معقول وجہ کا ہونا ضروری ہے۔  [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:273

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ