سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(243) وراثت کے متعلق چند سوال

  • 12234
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 812

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے مندرجہ ذیل  چارسوالات ہیں براہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کا جواب دیا جائے۔

٭  میری اولاد، تین لڑکے اورتین لڑکیوں پرمشتمل ہے۔ میری زرعی جائیداد 40 ایکڑ ہیں جسے میراایک بیٹا کاشت کرتا ہے جس کی محنت اورکارگردگی سے ہماراسارا کنبہ مستفید ہوتا ہے، میں نے اپنی بیوی اوراولاد کی تحریری رضامندی سے اس کاشت کار بیٹے کے نام حق الخدمت کے طورپر اپنی اراضی سے تین عددایکڑ لگوادیئے ہیں۔ باقی زمین مشترکہ ہے کیاایسا کرناشرعاًدرست ہے؟

٭  میرا بڑابیٹا شادی کے بعد گھر سے الگ ہوگیا ،اس نے الگ ہونے کے بعد اپنی کمائی سے کچھ جائیداد خریدی ہے، باقی دونوں بیٹوں نے بھی جومیرے ساتھ ہیں، اپنی کمائی سے اپنے نام گاؤں میں زرعی اراضی خریدی ہے ۔بڑا بیٹا ہمیں اپنی کمائی سے کچھ   نہیں دیتا بلکہ بے ادب گستاخ ہے اوروہ دونوں بیٹوں کی خریدکردہ اراضی سے حصہ مانگتا ہے، کیاوہ اس قسم کامطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے؟

 ٭  میری زرعی اراضی کی ہرقسم کی پیداوار سے بڑے لڑکے کو ہرسال اس کاحصہ دیاجاتا ہے لیکن اس کا مطالبہ ہے کہ جائیداد کوتقسیم کرکے اس کاحصہ دیاجائے جبکہ میرے ذمے ایک لڑکے کی شادی کے علاوہ اوربہت گھریلو کام ہیں ۔بڑالڑکا ویسے بھی ہمارے گھر میں عارمحسوس کرتا ہے۔ کیازندگی میں ایسے نافرمان لڑکے کواس کاحصہ دینا درست ہے یاوہ میرے مرنے کے بعد اپنا حصہ وصول کرے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ترتیب وار جواب حسب ذیل ہیں :

٭  آدمی جب تک زندہ ہے۔ اسے شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے مال وجائیداد میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق ہے لیکن اس تصرف میں اولاد کے درمیان برابری اور مساوات ضروری ہے۔ صورت مسئولہ میں باپ نے جواپنے کا شتکا ربیٹے کو تین عددایکڑ دیئے ہیں یہ بطورحق الخدمت عطیہ کی شکل ہے، چونکہ تمام ورثاء نے اپنی رضامندی سے بلاجبر واکراہ اس تصرف کوقبول کیا ہے اوراسے برقرار رکھتے ہوئے اپنے دستخط ثبت کئے ہیں۔ اس بنا پر شرعاًکوئی قباحت نہیں اوریہ جائز ہے، البتہ کاشت کار بیٹے کویہ عطیہ ملنے کے بعد باقی مشترکہ زمین سے بھی بطوروراثت حصہ ملے گا ایسا کرنے سے اس کاوراثتی کاحصہ ختم نہیں ہوگا۔ بشرطیکہ باپ کی وفات کے وقت وہ زندہ ہو۔

 ٭  الگ ہونے والے لڑکے نے اپنی کمائی سے جوجائیداد بنائی ہے وہ اس کاحق ہے اورباقی دونوں لڑکوں نے جوزرعی اراضی خریدی ہے یہ ان کاحق ہے، لہٰذا طمع اورلالچ کے پیش نظر ایک دوسرے کے حق پرڈاکہ ڈالنا شرعاًدرست نہیں ہے۔ باپ کی زرعی اراضی سے جواسے حصہ مل رہا ہے وہ اس کی بے ادبی اورگستاخی کی وجہ سے ساقط نہیں ہوگا اورنہ ہی دونوں بیٹوں کی کمائی سے خرید کردہ زرعی اراضی سے حصہ لینے کامطالبہ کرنااس کے لئے جائز ہے، کیونکہ یہ ان کی اپنی کمائی سے خریدکردہ ہے اوروہ باپ کی ملکیت نہیں ہے۔

 ٭  بڑے بیٹے کااپنے والد کومجبور کرناکہ وہ اپنی زندگی میں مجھے میرا حصہ دے جائے ،درست نہیں کیونکہ وراثت کااجرا مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں جوکسی کوکچھ دیاجاتا ہے وہ عطیہ ہے۔ جس میں بیٹے اوربیٹیاں مساویانہ طورپر حق دارہوتے ہیں۔ باپ کوزندگی میں مجبور نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اپنی جائیداد خود ورثا ء میں تقسیم کردے ۔خاص طورپرجبکہ باپ کی بے شمار ضروریات زندگی اوردیگر حقوق کی ادائیگی اس کے ذمے باقی ہے۔ ہاں، اگر والد اپنی مرضی سے کچھ دینا چاہے تومساوات کے ساتھ دے سکتا ہے لیکن اس پر جبر نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس کی وفات کے بعد اولاد کوان کاحصہ شرعی مل ہی جائے گا ۔    [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:268

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ