السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مختلف کمپنیوں کے موبائل کارڈ مارکیٹ میں مختلف قیمتوں پردستیاب ہوتے ہیں بعض کمپنیاں ٹیکس وصول کرتی ہیں، پھردکاندار اصل قیمت سے زیادہ پر آگے فروخت کرتے ہیں کمپنی کاٹیکس وصول کرنااوردکاندار کااصل قیمت سے زائد فروخت کرناکہاں تک درست ہے کیااس میں سود کااندیشہ تونہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موبائل یادوسرے کالنگ کارڈ کامعاملہ یوں ہے کہ وہ حکومت سے یونٹ خریدتے ہیں، پھرانہیں صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کمپنی سے فروخت کرنے پر تقریباً9% ٹیکس وصول کرتی ہے اسے سیل ٹیکس کہا جاتا ہے۔ جو ہر فروخت ہونے والی چیز پرلگایا گیا ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کایہ اقدام شرعاًدرست نہیں ہے۔ بہرحال کمپنی یا صارفین مجبور ہیں جو اس ٹیکس کوادا کرتے ہیں ۔کمپنی اس ٹیکس کوصارفین کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ 100کے کارڈ میں 90.90 روپے ہوتے ہیں چونکہ یہ نقدی کی خریدوفروخت نہیں ہے کہ اس میں کمی بیشی ناجائز ہوبلکہ یونٹ فروخت اورخریدے جاتے ہیں، لہٰذا اس میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھرنفع کے لئے شریعت نے کوئی حدمقرر نہیں کی ہے اسے فروخت کنندہ اورخریدارکی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کریں ۔بہرحال صورت مسئولہ میں سودوغیر ہ کاکوئی اندیشہ نہیں ہے۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب