سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) متعین وقت پر رقم واپس نہ کرنے پر شرح کے مطابق منافع ادا کرے؟

  • 12230
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 862

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بکرنے زید کی دکان سے مبلغ دولاکھ روپیہ کی مختلف اجناس خریدیں اورادائیگی نہ کی ،زید پانچ برس تک اپنی رقم کامطالبہ کرتا رہا۔ بالآخرتنگ آکر زید نے بکرکے خلاف دعویٰ دائر کردیا عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ بکر دولاکھ روپے ادا کرنے تک 14 فیصد تک بنک منافع کے مطابق مزید ادا کرے، یعنی اصل رقم کے علاوہ مذکورہ شرح کے مطابق ’’منافع ‘‘بھی ادا کرے گا، اب کیا مدعی اپنی اصل رقم کے ساتھ عدالت کی جاری کردہ ڈگری کے مطابق مدعا علیہ سے زیادہ رقم وصول کرسکتا ہے یانہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ صاحب حیثیت کا دوسروں کے واجبات کی ادائیگی میں دانستہ ٹال مٹول کرناصریح ظلم ہے، جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مالدار کاواجبات کی ادائیگی میں دانستہ دیر کرناصریح زیادتی ہے۔‘‘    [ بخاری، کتاب الحوالات: ۲۲۸۷]

حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایسے انسان کو بے عزت کر کے سزا کے طور پر قید بھی کیا جاسکتا ہے۔ [صحیح بخاری، کتاب الاستقراض تعلیقاً باب: ۱۳]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مزید فرمایا: ’’صاحب حق اپنا حق وصول کرنے کے لیے سختی سے کام لے سکتا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، ۲۴۰۱]

صورت مسئولہ میں ایک شخص عرصۂ دراز سے رقم کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، صاحب حق نے اپنا حق وصول کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کیااس پر جواخراجات اٹھے ہیں اس کا باعث بھی وہی ہے۔ جس کے ذمہ واجبات کی ادائیگی ہے، اس لئے عدالت کے فیصلہ کے مطابق زید اپنی اصل رقم سے زائد وصول کرسکتا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں حق کی وصولی کے لئے جورقم خرچ ہوئی ہے وہی وصول کر نے کامجاز ہے ۔اس سے زائد رقم وصول کرنے کا حق دار نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک تاوان ہے جودیرکرنے کی وجہ سے اس پرڈالاگیا ہے اورصاحب حق کی ایک دادرسی کی صورت ہے جس کی خاطر وہ ذہنی طورپر پریشان رہا، نیز یہ رقم ’’سود‘‘کے زمرہ میں نہیں آتی اگرچہ ظاہر ی طورپر ایسا نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے ۔    [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:265

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ