سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(237) شریعت میں شرح منافع کا کوئی تعین ہے؟

  • 12228
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1056

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شریعت میں شرح منافع کاکوئی تعیّن ہے تواس کی نشاند ہی کریں ہمارامیڈیکل سٹور ہے بعض ادویات پر قیمت فروخت 28روپے لکھی ہوتی ہے جبکہ ہمیں کمپنی کی طرف سے تقریباً13روپے میں ملتی ہے اس طرح ہمیں 15روپے نفع ہوتا ہے اتنا منافع لینے کی شرعاًاجازت ہے یانہیں ؟کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت میں شرح منافع کاکوئی تعین نہیں ہے جائزتجارت میں جس قدر چاہے نفع کمالیاجائے۔ اس پرکوئی پابندی نہیں ہے یہ غلط طورپر مشہور ہے کہ شرح منافع آٹے میں نمک کے برابرہوناچاہیے۔البتہ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے اور نہ ہی خریدوفروخت کرتے وقت جھوٹ بولاجائے بلکہ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور ایثار کے جذبات ہونے چاہییں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیمت خرید پر100فیصدمنافع کمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس شرح کوبرقرار رکھا بلکہ ان کے لئے خیروبرکت کی دعافرمائی ۔چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عروہ بارقی  رضی اللہ عنہ کوایک دینار دیا تاکہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خریدلائے اس نے منڈی سے ایک دینار کی دوبکریاں خریدیں، پھران میں سے ایک کوایک دینار کے عوض فروخت کردیا۔ پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نفع کاایک دینار اور خرید کردہ بکری پیش کردی ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے خیرو برکت کی دعافرمائی۔ اس دعاکایہ اثر تھا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تواس سے بھی نفع کماتے۔    [صحیح بخاری، المناقب: ۳۶۴۲]

اسی طرح حضرت حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیاتاکہ وہ اس سے قربانی کاجانورخریدلائے۔ انہوں نے ایک بکری ایک دینار کے عوض خریدی ،راستہ میں اسے گاہک ملا،اسے دودینار کے عوض فروخت کردیا ،پھر دوبارہ منڈی گئے وہاں سے ایک دینار کے عوض ایک اوربکری خریدی ،حاصل کردہ نفع اورخرید کردہ بکری رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش فرمائی توآپ نے حاصل کردہ نفع، یعنی ایک دینار بھی صدقہ کردینے کاحکم دیا۔    [ابوداؤد، البیوع: ۳۳۸۶]

ان روایات سے معلوم ہوا کہ شرح منافع کاشریعت نے کوئی تعیّن نہیں کیاہے۔ فریقین باہمی رضامندی سے خرید وفروخت کرنے میں آزاد ہیں۔ بس ایسے امور سے اجتناب کیاجائے جن سے شریعت نے منع کیا ہے، نیز دوسرے شخص کی مجبوری سے بھی ناجائز فائدہ نہ اٹھایئے ،ان شرائط کوپورا کرتے ہوئے قیمت خریدپرحسب منشا نفع لینے پرکوئی قدغن نہیں ہے ۔    [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:263

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ