السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص بنک سے ایک خاص شرح سودپر قرض لے کرکاروبارکرتا ہے، پھروہ اس قسم کی کمائی سے مدارس سے تعاون کرتا ہے کیاایسے شخص کاتعاون لینااور اس کے گھر سے کھاناپینا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بنک سے سود پرقرض لے کر کاروبار کرناایک سودی کاروبار ہے۔ سودی قرضے دوطرح ہوتے ہیں:
1۔ ذاتی قرضے، یعنی وہ قرضے جوکوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یابنک سے لیتا ہے ۔
2۔ تجارتی قرضے، یعنی وہ قرضے جوتاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے سودپر لیتا ہے ۔
شریعت میں دونوں قسم کے قرضوں کوحرام قرار دیا ہے کیونکہ ان پرسود دیاجاتا ہے قرآن کریم نے ذاتی قرض کے سلسلہ میں فرمایا ہے کہ ’’اللہ سود کومٹاتا ہے اورصدقات کی پرورش کرتا ہے‘‘ ۔ [۲/البقرہ :۲۷۶]
گویااللہ تعالیٰ نے سود کے خاتمہ کے لئے ذاتی قرضوں کاحل ’’صدقات ‘‘تجویز فرمایا ہے اورتجارتی قرض کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے کہ’’ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قراردیا ہے۔‘‘ گویا اللہ تعالیٰ نے تجارتی قرضوں سے نجات کے لئے شراکت اورمضاربت کی راہ دکھائی ہے۔ جوحلال اور جائز ہے۔ یہ وضاحت، اس لئے ضروری تھی کہ آج بہت سے مسلمان
سودخور یہودیوں کی نمایندگی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس سود کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے وہ ذاتی قرضے ہیں۔ جن کی شرح سود بہت ظالمانہ ہوتی تھی اورجوتجارتی سودہے وہ حرام نہیں کیونکہ اس وقت تجارتی قرض لینے دینے کا رواج نہیں تھا حالانکہ نزول قرآن کے وقت تجارتی سود موجود تھا اور سود کی حرمت سے قبل حضرت عباس رضی اللہ عنہ تجارتی سود کا کاروبا رکرتے تھے ۔اس کے علاوہ قرآن کریم میں لفظ ’’ربوا‘‘ مطلق ہے جوذاتی اورتجارتی دونوں اقسام پرمشتمل ہے۔ اس لئے تجارتی سود کوحرمت سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس قسم کی حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں مدارس وغیر ہ کاتعاون کرنابھی حرام ہے۔ کیونکہ فرمان نبوی ہے: ’’اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے ۔‘‘ [صحیح بخاری ،الزکوٰۃ :۱۴۱۰]
ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے لوگو!اللہ پاک ہے اوروہ صرف پاک مال قبول کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوبھی اسی بات کاحکم دیا ہے جس کااس نے اپنے رسولوں کوحکم دیا، چنانچہ فرمایا: ’’اے پیغمبر! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘ اور فرمایا: ’’اے ایمان والو!وہ پاکیزہ چیزیں کھاؤ جوہم نے تمہیں دی ہیں۔‘‘ [ترمذی، التفسیر: ۲۹۸۹]
سودی کاروبار کرنے والے حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ اس حرام کمائی سے تھوڑا بہت اللہ کی راہ میں دینا ،اس سے وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے جس کا وہ سودی کاروبار کی شکل میں ارتکاب کرتے ہیں۔ اہل مدارس کواللہ پرتوکل کرتے ہوئے ان حضرات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اوران سے صدقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اس غیرت وحمیت کے بدلے بہت سے ایسے راستے کھول دے گا جن کااہل مدارس کووہم و گمان بھی نہیں ہوگا ۔تحدیث نعمت کے طورپر عرض کیاہے کہ راقم الحروف نے اپنے ادارہ کے لئے ایسے کاروباری حضرات کا بائیکاٹ کیا ہے جو سود لیتے دیتے ہیں۔ اللہ کا دین ایسی گندگی اور نحوست کا قطعاً محتاج نہیں ہے۔ اس بائیکاٹ کی برکت سے ہمیں ادارے کے سلسلہ میں کبھی مالی پریشانی کاسامنانہیں کرنا پڑا ۔صورت مسئولہ میں بنک سے سودی شرح پر قرضہ لے کرکاروبار کرنے والے کامالی تعاون قبول نہیں کرناچاہیے اورنہ ہی ان کی دعوت کوقبول کرناچاہیے ۔حدیث میں ہے: ’’جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ کراس چیز کواختیار کیاجائے جوشک میں نہیں ڈالتی۔ ‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۱۵۳،ج ۳]
البتہ اسے وعظ وتبلیغ کے ذریعے اس کاروبار کی سنگینی سے ضرور آگاہ کرتے رہناچاہیے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب