السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک پروفیسرنے نظام اشتراکیت کی تائید میں سورۂ بقرہ کی آیت کاحوالہ دیا کہ ضروریات سے زائد تمام مال حکومت کی ملکیت ہے اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت ابوذرغفار ی رضی اللہ عنہ کے موقف کابھی حوالہ دیا ۔اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نظام اشتراکیت کے سلسلہ میں جس آیت کاحوالہ دیا ہے وہ حسب ذیل ہے:
’’لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں، ان سے کہہ دیں کہ جوکچھ بھی ضرورت سے زائد ہو ، وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔‘‘ [۲/البقرہ: ۲۱۹]
لیکن یہ آیت کریمہ نفلی صدقات کی آخری حدہے اورصدقہ کی کم ازکم حدفرضی صدقہ زکوٰۃ ہے جوکفر اوراسلام کی سرحد پر واقع ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اگرانسان صدقہ کی کم ازکم حد کی ادا ئیگی نہ کرے تووہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی لوگوں کے خلاف جہاد کیاتھا ۔ان دونوں حدوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے اوراہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کماسکتے ہیں ۔لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے قرآنی آیات میں ’’العفو‘‘کے مفہوم کوبہت غلط معنوں میں استعمال کیا ہے، اشتراکی نظریہ کے مطابق ہرچیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اوراس قسم کی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تووہ پس انداز کیا کرے گا اورخرچ کیاکرے گا اور انفاق کے متعلق کیاپوچھے گا؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظر یہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہی آیت اس نظریہ کی تردید پربڑی واضح دلیل ہے کیونکہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے اموال کے مالک تھے اوراپنی مرضی سے ہی ان اموال میں تصرف کرنے کاحق رکھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جہاد کے موقع پر یہ سوال کیاتھا جبکہ اس کے لئے مصارف کی شدید ضرورت تھی، ایسے حالات میں مسلمانوں کی تربیت کی گئی کہ وہ اپنے اختیار وارادہ سے اگر سارامال دینا چاہیں تودے سکتے ہیں ،لیکن اس کے برعکس اگرکوئی سارامال نہیں دے سکتا تواس پرکوئی پابندی نہیں لگائی گئی جبکہ اشتراکیت بالکل اس کے برعکس ہے جو حالات جنگ کے بغیر عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کردیتا ہے، لہٰذا اس آیت کریمہ میں نظریہ اشتراکیت کشید کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سورۂ توبہ کی ایک آیت کے پیش نظر یہ موقف رکھتے تھے کہ ضروریات سے فالتوسرمایہ رکھنا شرعاًدرست نہیں ہے بلکہ وہ کنز کے حکم میں ہے جس کے متعلق قرآن میں سخت وعید آئی ہے۔ دراصل حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتے جس میں سخت حکم ہوتا تھا تواسے اپنی قوم کوپہنچادیتے ۔اس کے متعلق کچھ نرمی آجاتی لیکن حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ پہلے حکم پر ہی عمل پیرا رہتے ،جیسا کہ مال جمع کرنے کے متعلق ان کاموقف ہے ۔اس سلسلہ میں جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ [فتح الباری ،ص: ۳۴۵،ج ۳ ]
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ا عرابی نے سوال کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جولوگ سونے اورچاندی کوجمع کرتے ہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں المناک عذاب کی خبردیں۔‘‘ [۹/توبہ: ۳۴]
اس قرآنی آیت کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ جس نے مال جمع کیا اوراس کی زکوٰۃ ادا نہ کی اس کے لئے ہلاکت ہے۔ آیت میں مذکورہ وعید زکوٰۃ کے نازل ہونے سے پہلے تھی ،جب زکوٰۃ کاحکم نازل ہوا تواللہ تعالیٰ نے اسے اموال کی پاکیزگی کاذریعہ بنادیا۔ [صحیح بخاری :۱۴۰۴]
بہرحال قرانی آیت اورحضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے موقف سے اشتراکی نظریہ کی قطعاًتائید نہیں ہوتی ہے ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب