سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) ادھار مہنگا سودا خریدنا

  • 12219
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1014

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض اوقات ہمارے پاس بیوپاری آتے ہیں ان کے پاس مال کے نمونے ہوتے ہیں، فریقین باہمی رضامندی سے ریٹ طے کر لیتے ہیں، ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ سودامہنگا ہے کیونکہ ادھار لے رہے ہیں لیکن باہمی رضامندی سے یہ طے کرلیاجاتا ہے کہ ہفتہ وار کل رقم کا 1/4یا1/8 ادا ہو گا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس معاملہ کی دوصورتیں ممکن ہیں پہلی یہ کہ جب سوداہورہاتھا تو فروخت کار کے پاس مال موجودتھا اگرچہ اس کے سٹور میں ہو۔ وہ معاملہ طے ہونے کے بعد مال مہیا کردیتاہے اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ معاملہ طے کرتے وقت اس کے پاس صرف نمونہ ہی تھا اس کے پاس مال موجودنہ تھا اس نے آگے کسی سے خریدکریا خودتیار کرکے مال مہیا کرنا ہے ،یہ صورت ناجائز ہے ۔کیونکہ کسی کوایسی چیز فروخت کرنے کی شرعاًاجازت نہیں ہے جوسودا طے کرتے وقت اس کی ملکیت نہ ہویا وہ اس وقت مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسی چیز مت فروخت کروجوتمہارے پاس نہیں ہے۔‘‘یہ حکم امتناعی اس وقت جاری فرمایا جب حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اوروہ مجھ سے ایسی چیز طلب کرتا ہے جومیرے پاس نہیں،میں سودا طے کرنے کے بعد بازار سے خریدکراسے مہیا کرتا ہوں توآپ نے اس سے منع فرمایا ۔     [ابوداؤد ،البیوع :۳۵۰۳]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:252

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ