سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(504) نقد اور ادھار کے ریٹ میں فرق رکھنا

  • 12216
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 893

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

  بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک آیا اوراس نے ہم سے ریٹ پوچھا اور طے کرکے ہم سے سودا لیا، ہمیں سودے بازی کرتے وقت یہ پتہ نہیں ہوتا کہ گاہک ادھار سودا لے گا یا نقد وہ کبھی نقدرقم دے جاتا ہے اورکبھی ادھار پرمال لے جاتا ہے، کیا اس طرح سودا کرنے میں کوئی قباحت تونہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سودے بازی میں شرعاًکوئی قباحت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد قیمت اداکرکے چیزیں خریدی ہیں اورادھار پر بھی اشیاء صرف لی ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے ایک اونٹ خریدااوراس کی قیمت نقداداکردی۔ [صحیح بخاری، البیوع :۲۷۱۸]

نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار رقم کی ادائیگی پرکچھ جوخریدے اوربطور اعتماد اس کے پاس اپنی ذرہ گروی رکھ دی۔     [صحیح بخاری، الاستقراض: ۲۳۸۶]

اس لئے نقد وادھار خریدوفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:251

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ