السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کپڑے کا کاروبار کرتا ہوں ہمارا کاروبار خرید وفروخت میں نقد اورادھار پرمنحصر ہوتا ہے، اس سلسلہ میں چند ایک سوالات ہیں،جن کی وضاحت درکار ہے۔ آج بھی اس وضاحت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، اس بنا پر یہ سوالات مع جوابات پیش خدمت ہیں :
٭ ہمارے پاس گاہک آیا، اس نے ہم سے ریٹ پوچھا اورنقدرقم کی ادائیگی پرہم سے مال لیا اورچلاگیا۔ اس سودے بازی میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ نفع کمایا جائے اورگاہک کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رعایت لی جائے، اس سلسلہ میں شرعی طورپر ہم کس شرح سے نفع لے سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں خرید وفروخت کے جائز ہونے کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں :
1۔ فریقین باہمی رضامندی سے سوداکریں ۔
2۔ فروخت کردہ اشیا اوران کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
3۔ قابل فروخت چیز فروخت کنندہ کی ملکیت ہواوروہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پرقادر ہو۔
4۔ فروخت کردہ چیز میں کسی قسم کاکوئی عیب چھپاہوانہ ہو۔
5۔ کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو۔
6۔ کاروبار میں سودی لین دین بطور حیلہ جائز نہ قراردیاگیا ہو۔
7۔ اس خریدوفروخت میں کسی فریق کودھوکہ دینا مقصود نہ ہو۔
8۔ تجارتی لین دین میں حق رجوع کوبرقرار رکھا گیا ہو۔
اگرمذکورہ بالاشرائط کسی خریدوفروخت میں پائی جاتی ہیں تووہ جائز اورحلال ہے، لیکن اسلام میں کوئی شرح منافع مقرر نہیں ہے، البتہ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اورایثار کے جذبات ہونے چاہییں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 100%نفع کمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسے برقرار رکھا بلکہ ان کے لیے خیر وبرکت کی دعافرمائی ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کوایک دینار دیا تاکہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خرید کر لائیں، اس نے منڈی سے ایک دینار کی دوبکریاں خریدیں ،پھر ان میں سے ایک کوایک دینار کے عوض فروخت کردیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نفع کا ایک دینار اورخریدکردہ بکری پیش کردی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے خیروبرکت کی دعا کی ۔اس دعا کا یہ اثر تھا کہ اگروہ مٹی بھی خرید لیتے تواس سے بھی نفع کماتے ۔ [صحیح بخاری ،المناقب :۳۶۴۲]
اسی طرح حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیاتاکہ وہ اس سے قربانی کاجانور خریدلائے، انہوں نے ایک بکری ایک دینار کے عوض خریدی ،راستہ میں انہیں گاہک ملا اسے وہ دودینار کے عوض فروخت کردی ،وہ دوبارہ منڈی گئے وہاں سے ایک دینار کے عوض ایک اوربکری خریدی اورحاصل کردہ نفع اورخریدکردہ بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کردہ نفع ایک دینار بھی صدقہ کردینے کاحکم فرمایا ۔ [ابوداؤد ،البیوع :۳۳۸۶]
ان روایات سے معلوم ہوا کہ شرح منافع کاشریعت نے کوئی تعین نہیں کیاہے ،فریقین باہمی رضامندی سے خریدوفروخت کرنے کے مجاز ہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب