سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) دائمی بیمار جو بالکل روزہ نہ رکھ سکے؟

  • 12211
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1965

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جوشخص رمضان کے روزے نہ رکھ سکے تووہ رمضان کے بعد اس کی گنتی پوری کرے گا لیکن جودائمی بیمار یاشوگر کامریض ہوجوبالکل روزہ ہی نہ رکھ سکے ،اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  کسی فرض کووقت کے بعد بجالانا قضا کہلاتا ہے۔ روزے کے متعلق بعض عذر ایسے ہیں جوقضا کاباعث ہیں اوربعض عذر فدیہ کاموجب ہیں، مثلاً: اگر معمولی بیماری ہے اورروزہ رکھنے میں کوئی دقت نہیں توروزہ رکھ لینا بہتر ہے اوراگر بیماری زیادہ ہے کہ روزہ رکھنے سے مشقت ہوتی ہے یابیماری بگڑنے کااندیشہ ہے تو روزہ چھوڑ اجاسکتاہے ۔قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ دوران بیماری جتنے روزے رہ جائیں انہیں بعد میں رکھ لیاجائے ۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں بھی اس بات کی وضاحت ہے اگردائمی مریض ہے یاشوگر کی وجہ سے روزہ رکھنے کی ہمت نہیں ہے تو روزہ چھوڑ دیا جائے اورفدیہ کے طورپرکسی دوسرے شخص کو روزے رکھوا دئیے جائیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اورجولوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ کے طورپر ایک مسکین کو کھانا کھلائیں‘‘ ۔[۲/البقرہ : ۱۸۴]

اسی طرح اگرکوئی اس قدر ضعیف ہوکہ روزہ نہ رکھ سکتا ہووہ بھی اپنے روزوں کافدیہ دے گا، جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کافتویٰ ہے ’’بہت بوڑھے کے لئے رخصت ہے کہ وہ خودروزہ رکھنے کی بجائے ہردن ایک مسکین کودووقت کاکھانادے ،اس کے ذمے روزہ کی قضا نہیں ہے ۔‘‘     [مستدرک حاکم :۱/۴۴]

اس آیت کریمہ اور فتویٰ ابن عباس  رضی اللہ عنہما کے پیش نظر دائمی مریض یاشوگر کاعارضہ لاحق ہوتو بیمار رمضان کے بعد روزہ رکھنے کے بجائے رمضان میں ہی کسی مسکین کوروزہ رکھنے کے اخراجات مہیا کردے۔     [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:247

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ