السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس طرح ایک بیل یا ایک گائے سے سات قربانیاں کی جا سکتی ہیں، کیا اسی طرح ہم تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے لئیے عقیقہ کر سکتے ہیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!بڑے جانور سے عقیقہ کرنے کے بارے اہل علم کے ہاں دو قول پائے جاتے ہیں۔جن کے نزدیک بڑے جانور سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے ان کے نزدیک ایک گائے یا بیل سات بکریوں کے برابر ہوتے ہیں ،اور ان سے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کا عقیقہ کیا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ قول مرجوح ہے۔ اور راجح قول کے مطابق عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ کیونکہ حدیث مبارکہ میں شاۃ کا لفظ آیا ہے جو صرف بھیڑ اور بکری کی جنس پر بولا جاتا ہے۔ گائے اور اونٹ شاۃ میں شامل نہیں ہیں۔ لہذا بڑے جانور کو ایک لڑکے یا لڑکی کے عقیقہ میں بھی ذبح نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی چھ سات لڑکے لڑکیوں کے عقیقہ میں ذبح کیا جا سکتا ہے اونٹ اور گائے کے عقیقہ کے متعلق سیدنا انس سے جو روایت پیش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے عقیقہ میں اونٹ کیا کرتے تھے، وہ ضعیف ہے۔اس میں ایک راوی قتادہ مشہور ومعروف مدلس موجود ہیں۔جبکہ اس کے مقابلہ میں شاۃ والی صحیح روایت موجود ہے۔جس میں بڑے جانور کے عقیقے سے منع بھی کیا گیا ہے۔ أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَابْنُ مُلَيْكَةَ عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وَوَلَدَتْ لِلْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ غُلَامًا، فَقُلْتُ: «هَلَّا عَقَقْتِ جَزُورًا عَلَى ابْنِكِ» ، فَقَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ كَانَتْ عَمَّتِي عَائِشَةُ، تَقُولُ: «عَلَى الْغُلَامِ شَاتَانِ، وَعَلَى الْجَارِيَةِ شَاةٌ»[مصنف عبد الرزاق: 4/ 328]۔علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: و إسناده صحيح [سلسلة الأحاديث الصحيحة( 1/ 8) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ میں بڑا جانور نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح عقیقہ کے جانور کے لیے مسنہ (دو دانتا یا اس کے اوپر والا) ہونا کوئی لازمی نہیں بعض اہل علم اضحیہ قربانی پر قیاس کرتے ہیں اور مسنہ کو لازمی قرار دیتے ہیں لیکن نص میں شاتان اور شاۃ عام ہیں مسنہ اور غیر مسنہ دونوں کو شامل ہیں تو نص مقدم ہے لہٰذا عقیقہ میں مسنہ لازمی نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |