السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اعتکاف سے فراغت کے بعد معتکف کے گلے میں ہار پہنانا اوراسے گلے ملنا، نیز عید کے دن عیدسے فارغ ہونے کے بعد معانقہ کرنا یاعید مبارک کہناشرعی لحاظ سے کیاحکم رکھتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مدینہ منورہ میں رہے، رمضان المبارک میں اعتکاف کرتے رہے ۔آپ کے بعد ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی رہیں، کتب حدیث میں کسی مقام پراشار ہ تک نہیں ملتا کہ اعتکاف سے فراغت کے بعد معتکف کو اعتکاف گاہ سے پروٹوکول کے ساتھ نکالاجائے ،اس کے گلے میں ہار پہنائے جائیں اورجلوس کی شکل میں اسے گھر پہنچایا جائے، شنید ہے کہ بعض مقامات پرمعتکف حضرات کی یادگار تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں۔ دین اسلام میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اعتکاف کامقصد یہ ہے کہ دل کااللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ ہوجائے ،اس کے ذریعہ سکون وطمانیت میسرآجائے ،معتکف کو گناہوں سے نفرت اورامورخیر سے محبت ہو،اگر دوران اعتکاف یہ چیزیں حاصل ہوجائیں تو ایسے انسان کوقطعاًضرورت نہیں ہے کہ وہ فراغت کے بعد اپنے گلے میں پھولوں کے ہار پہنے یالوگوں کی مبارک بادوصول کرے، بلکہ اسے چاہیے کہ فراغت کے بعد چپکے سے اپنابستر کندھے پررکھے اورسادگی کے ساتھ اپنے گھر روانہ ہوجائے۔گلے میں ہار پہنانے اورگلے ملنے سے ریاکاری اور نمائش کااندیشہ ہے، پھرایسا کرنا اسلاف سے ثابت بھی نہیں ہے، اسی طرح عید کے دن معانقہ کرنایامبارک باددینا بھی احادیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ عید کے بعد ایک دوسرے سے بایں الفاظ دعائیہ کلمات کہے جاسکتے ہیں ’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ ‘‘ کیونکہ ایسا کہنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب عید کے دن ملتے تومذکورہ الفاظ سے مبارک باددیتے تھے ۔ [فتح الباری، ص:۴۴۶،ج ۳]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عیدکے دن مذکورہ الفاظ کے ساتھ مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[المغنی، ص۲۹۴ ج۳]
لیکن عید کے دن مصافحہ اورمعانقہ کرناایک رواج ہے جس کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہیں ملتا ،مولاناثنا ء اللہ امر تسری رحمہ اللہ سے کسی نے اس کے متعلق سوال کیا توآپ نے بایں الفاظ بڑاجامع جواب دیا مصافحہ بعدازسلام آیا ہے۔ عید کے روز بھی بنیت تکمیل سلام مصافحہ کریں توجائز ہے بنیت خصوص عید، بدعت ہے، کیونکہ زمانہ رسالت وخلافت میں مروج نہ تھا۔ [فتاویٰ ثنا ئیہ، ص:۴۵۰،ج ۱]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب