السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر حائضہ عورت قبل از فجر پاک ہو جائے مگر وہ غسل طلوع فجر کے بعد کرے، تو اس کے روزے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا روزہ صحیح ہے بشرطیکہ طلوع فجر سے قبل اسے طہر کا یقین ہو جائے اس بارے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اسے طہر کا یقین ہو کیونکہ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ طاہر ہوگئی ہیں، حالانکہ وہ طاہر نہیں ہوتیں، اسی لیے عورتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس روئی بھیجتیں اور انہیں طاہر ہونے کی علامت دکھاتیں، تو آپ ان سے فرماتیں کہ جلدی نہ کرو حتیٰ کہ سفید پانی دیکھ لو، لہٰذا عورت کو اچھی طرح یقین کر لینا چاہیے کہ وہ پاک ہوگئی ہے۔ جب پاک ہو جائے تو وہ روزے کی نیت کر لے، غسل خواہ طلوع فجر کے بعد کرے لیکن اسے غسل بھی جلدی کر لینا چاہیے تاکہ نماز فجر بروقت ادا کر سکے۔
ہمیں معلوم ہوا کہ بعض عورتیں بعد از طلوع فجر یا قبل از طلوع فجر پاک ہو جاتی ہیں مگر غسل طلوع آفتاب کے بعد تک مؤخر کر دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ دن کی روشنی میں ایسا غسل کرنا چاہتی ہیں، جو زیادہ کامل زیادہ صاف اور زیادہ طاہر ہو لیکن یہ بات غلط ہے، خواہ رمضان ہو یا غیر رمضان کیونکہ اس کے لیے واجب ہے کہ جلد غسل کرے تاکہ نماز فجر وقت پر ادا کر سکے۔ نماز ادا کرنے کے لیے وہ غسل واجب پر اکتفا کرے اور اگر طلوع آفتاب کے بعد مزید طہارت ونظافت کے لیے دوبارہ غسل کرنا چاہے، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ حائضہ عورت کی طرح اگر جنبی عورت بھی طلوع فجر کے بعد غسل کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ اسی طرح مرد بھی اگر غسل جنابت طلوع فجر کے بعد کرے اور وہ روزہ دار ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ آپ بیوی کے ساتھ مقاربت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے تو روزہ رکھ لیتے اور غسل طلوع فجر کے بعد فرماتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب