فدیہ، ہدیہ، اور جزیہ کی تعریف اور ان کے احکامات قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کر دیں ۔؟
یہاں میں اپنے تمام بھائیوں سے ایک واقعہ شیئر کروں گا جس کے ذریعے ایک بات کی طرف سب بھائیوں کو توجہ دلانا مقصود ہے۔ رمضان کے مہینہ میں ایک مسجد میں راقم الحروف روزانہ قیام اللیل کے ساتھ ایک پارہ کا ترجمہ بیان کرتا تھا۔اجتماع میں خواتین کا بھی علیحدہ سے پردے میں انتظام تھا۔ کوئی بائیسویں روزے کی بات ہو گی کہ خواتین کی طرف سے ایک لمبا چوڑا سوالنامہ تقریبا 20 عدد سوالات پر مشتمل موصول ہوا۔ راقم کو بڑی حیرت ہوئی کہ پہلے بیس دن تو کسی کو کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوا اور پھر اچانک اتنے سوالات کہاں سے آ گئے۔ چلیں! اس پر تو دل کو تسلی دے لی کہ شاید 20 دنوں کے سوالات جمع ہو گئے ہوں لیکن جب ان سوالات کا مطالعہ کیا تو ان میں سے کوئی ایک بھی سوال ایسا نہیں تھا جس کے بارے میں نے اپنے پچھلے 20 یا 22 دنوں میں اپنے دروس میں کوئی بات کی ہولہذا حیرت اور بڑھ گئی کہ جب میں نے ایسی کوئی بات ہی نہیں کی تو یہ سوالات میرے درس میں کیسے پیدا ہو گئے۔
بہر حال راقم نے ان سوالات کے جوابات مرتب کر کے ان صاحب کو پکڑا دیے جو خواتین کی طرف سے سوالنامہ لے کرآئے تھے اور جب میں نے ان سوالات کے بارے کچھ استفسار کیا تو معصومیت سے فرمانے لگے :
وہ دراصل بچی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کورس کر رہی ہے اور اس نے مشق حل کر کے بھیجنی تھی لہذا ہم نے سوچا ،لگے ہاتھوں حافظ صاحب سے فائدہ اٹھالیا جائے۔
ہمارے بعض بھائیوں کے سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے اور بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ جاری ہو جاتی ہے۔یہ تو ایک خوش طبعی کی بات تھی لیکن بھائیوں کو یہ یاد دہانی کروانا بھی مقصود ہے کہ اس فورم میں وہی سوالات پوسٹ کیے جائیں جو واقعتا سوالات کہنے کے مستحق ہوں یعنی مختصر اور جامع اور ضرورت کے مطابق ہوں۔
مذکورہ بالا سوال، سوال سے زیادہ تحقیقی مضمون محسوس ہوتا ہےکیونکہ سوال یا استفتاء کسی واقعہ کے بارہ ہوتا ہے ،۔ اگر سوال یا استفتاء میں پیچھے کوئی واقعہ نہ ہوتا تھا تواہل الحدیث یعنی امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ان کا جواب دینے سے اجتناب کرتے تھے جبکہ اہل الرائے فقہ تقدیری کے نام سے ایسے سوالات کے بھی جواب دیتے تھے جن کے پیچھے کوئی فرض واقعہ موجود ہو۔لہذا سوال کرتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے:
1۔ سوال کسی واقعہ کے متعلق ہو جو کہ کسی شخص کو پیش آیا ہو۔
2۔ ایک وقت میں ایک ہی سوال ہو اور مختصر اور جامع عبارت میں ہو۔
3۔ ایسے سوالات پوسٹ کیے جائیں جن کا جواب آپ اپنے قریبی علماء سے معلوم نہیں کر سکتے ہیں یا آپ کے پاس موجود مصادر و کتب یا جانی پہچانی ویب سائیٹس میں دستیاب نہیں ہے یا آپ نے اپنے طور پر اس کا جواب بعض اہل علم یا فتاوی سے حاصل کیا ہے لیکن اس جواب پر آپ کو اطمینان نہیں ہے۔
امید ہے کہ بھائی ان باتوں کا برا نہیں منائیں گے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیثجلد 2 کتاب الصلوۃ |