السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان المبارک میں نماز تراویح باجماعت پڑھائی جاتی ہے، عام طورپر ستائیسویں رات قرآن کریم ختم کیا جاتا ہے، اس موقع پر مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنے کا اہتمام کیاجاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے کیاایسے موقع پر یہ اہتمام اسلاف سے ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان المبارک میں تکمیل قرآن کے موقع پرمٹھائی وغیرہ تقسیم کرنے کے متعلق ہم افراط وتفریط کاشکار ہیں بعض انتہاپسند اسے بدعت قراردے کر اسے ضلالت و گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں، پھر اسی پر اکتفا نہیں کرتے ،بلکہ یہ کام کرنے والوں کوجہنم رسید کرکے سانس لیتے ہیں، جبکہ دوسری طرف جوتساہل پسندہیں ان کارویہ انتہائی قابل اعتراض اورمحل نظر ہے کیونکہ وہ ایسے موقع پر کھانے پینے کااس قدر تکلف کرتے ہیں کہ اللہ کاگھر شادی محل معلوم ہوتا ہے بلکہ بعض مساجد میں آخری عشرہ اسی انداز سے گزاراجاتا ہے کہ طاق راتوں میں دیگیں پکائی جاتی ہیں، تقریر اوروعظ ونصیحت کے لئے جید اورخوش الحان علمائے کرام کو مدعو کیا جاتا ہے اورساری رات کھانے پینے اوروعظ ونصیحت سننے سنانے میں گزرجاتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس قسم کی افراط وتفریط درست نہیں، بلاشبہ رمضان المبارک نماز تراویح میں قرآن کریم پڑھنا اورسنناایک بہترین عمل ہے۔ اس کے لئے کسی متدین اورمتشرع حافظ قرآن کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جوخوش الحانی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرے ،نماز تراویح میں مکمل قرآن کریم کوپڑھنے اورسننے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز تراویح پڑھانے کے لئے بہترین قراء کا انتخاب کرتے تھے۔ کتب احادیث میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما اورحضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کانام بطور خاص ملتا ہے ۔راوی بیان کرتا ہے کہ نماز تراویح میں حافظ قرآن سو آیات کی تلاوت کرتا اوریہاں تک کہ قیام کے طویل ہونے کی وجہ سے بعض مقتدی اپنی لاٹھیوں کاسہار الینے پرمجبور ہو جاتے، پھراس قیام سے صبح صادق کے قریب فراغت حاصل کرتے۔ [مؤطاامام مالک ،ص:۱۳۷،ج ۱]
تکمیل قرآن کے لئے ہماری رائے یہ ہے کہ انتیسویں رات کاانتخاب کیاجائے اس کے لئے خاص اہتمام کاتکلف نہ کیاجائے، بلکہ سادگی کے ساتھ اسے سرانجام دیا جائے۔ تکلفات سے بالا تر ہو کر اگر کوئی نمازی اپنی طرف سے مٹھائی وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے تو اسے قابل گردن زنی جرم نہ قرار دیا جائے۔ ہم لوگ خوشی کے موقع پر اپنے گھروں میں اس طرح کااہتمام کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے لئے آخری عشرہ کے آغاز سے تحریک چلانااور تقسیم شرینی کے نام سے چندہ اکٹھا کرنا، باقاعدہ ہرنماز کے بعد اس کااعلان کرناصحیح نہیں ہے۔اس سلسلہ میں حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کامعتدل فتویٰ حسب ذیل ہے :
’’بعض تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب سورۂ بقرہ ختم کی تودس اونٹ ذبح کیے، اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کتاب کے ختم ہونے پراگرکوئی خوشی کی جائے توحرج نہیں لیکن اس کاالتزام کرنااوراس کوضروری سمجھنا، جیسا کہ آج کل ہوتا ہے یہ طریقہ مناسب نہیں ،کیونکہ سلف میں اس قسم کے التزام کاثبوت نہیں ہے ۔‘‘ [فتاویٰ اہلحدیث ،ص:۶۷۶،ج ۱]
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کاحوالہ اب مجھے مستحضر نہیں ہے اس موقع پر یہ گزارش کرنابھی ضروری ہے کہ نماز تراویح پڑھانے والے حافظ قرآن کو چاہیے کہ وہ لوجہ اللہ اس کام کوسرانجام دے ،دل میں کسی قسم کاطمع اورلالچ نہ رکھے ،نیز انتظامیہ کوبھی چاہیے کہ وہ برسرعام اس حافظ قرآن کی عزت نفس اورخود داری کومجروح کرنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس کی جوخدمت کرناچاہیں کر دیں۔ بھری مسجد میں ایسی باتوں کااعلان کرناصحیح نہیں ہے ،بہرحال ہمیں اعتدال کے دامن کوتھامناہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میانہ روی اور اعتدال کوہی بہتر قرار دیا ہے ۔ [واللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب