سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191) دورانِ روزہ قے آنا

  • 12177
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1676

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری والدہ نے روزہ رکھاتھا اسے دوران روزہ قے آگئی اس کے متعلق کیاشرعی حکم ہے، کیاقے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے؟ وضاحت فرمائیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قے آنے کی دوصورتیں ہیں:

1۔  جان بوجھ کر ارادی طورپرقے کی جائے ،ایسا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

2۔  خودبخود قے آجائے تواس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ اس سلسلہ میں ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جسے خودبخود قے آجائے اس پرقضا نہیں ہے اورجوشخص جان بوجھ کر قے کرے وہ بعد میں اس روزہ کی قضادے۔‘‘[ابوداؤد، الصوم : ۲۳۸۰]

اس بنا پر ہمارے نزدیک اگرقے کاغلبہ ہوتواس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا اگردانستہ قے کی جائے توروزہ جاتا رہے گا۔ اگر انسان محسوس کرے کہ اس کے معدے میں ہلچل برپا ہے اور اس میں جوکچھ ہے۔ وہ خارج ہوجائے گا تواس صورت میں اسے جذب کرنے کی کوشش نہ کی جائے اورنہ ہی اسے روکاجائے۔ معمول کے مطابق وہ کھڑا یابیٹھا رہے ۔اگراس نے ارادۃً قے کی ہے تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گا اگرارادی فعل کے بغیرقے آگئی تواس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، البتہ سیدناامام بخاری رحمہ اللہ  کایہ رجحان ہے کہ ہرقسم کی قے روزہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، خواہ ارادی ہویاغیرارادی کیونکہ انہوں نے ایک عنوان قائم کرکے کچھ آثار پیش کئے ہیں جن میں سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہے، مثلاً: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’جب کوئی قے کرے تواس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ وہ قے باہرنکالتاہے کوئی چیز اپنے اندر داخل نہیں کرتا۔‘‘      [صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب نمبر:۳۲]

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ’’ روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جوداخل ہواور اس سے نہیں ٹوٹتا جوباہرخارج ہو۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب نمبر :۳۲]

امام بخاری رحمہ اللہ  نے ان آثار سے ایک قاعدہ اخذ کیاہے کہ روزہ اس چیز سے فاسد ہوتا ہے جوپیٹ میں داخل ہو،باہرنکلنے والی چیز سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن قاعدہ عمومی تو ہوسکتا ہے کلی نہیں ہے، کیونکہ خروج منی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ  کے نزدیک مذکورہ بالاروایت صحیح نہ ہو،جس میں قے کے متعلق تفصیل بیان ہوئی ہے ،جیسا کہ انہوں نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں اس کی طرف اشارہ کیاہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے واضح طورپر لکھا ہے کہ افطار اس صورت میں ہے جب دانستہ قے کرے اورغلبہ قے کی صورت میں عدم افطار ہے۔ ائمہ اربعہ کابھی یہی موقف ہے اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ غلبہ قے کی صورت میں اس کے پیٹ میں جانے کا خوف نہیں ہوتا ،کیونکہ طبیعت مدافعت کرتی ہے اورجب دانستہ قے کی جائے توطبیعت مدفوع حصہ سے بخل کرتی ہے۔ اس بنا پر اس کے واپس لوٹنے کااحتمال رہتا ہے، اس لئے دانستہ قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جا تا ہے۔ [فتح الباری، ص:۲۲۳، ج ۴]

بہرحال ہمارے نزدیک تفصیل بالا کے مطابق خودبخود قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اوراگردانستہ قے کی جائے تواس سے روزہ ختم ہوجاتا ہے اور رمضان کے بعد اس کی قضا دی جائے ۔     [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:229

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ