سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(189) حج مبرور کی تعریف اور فضیلت

  • 12174
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 6248

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج مبرورکیا ہوتاہے اوراس کی کیا فضیلت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حج مبرور کوافضل ترین اعمال سے شمار کیاہے ،چنانچہ آپ سے سوال کیاگیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ اوراس کے رسول پرایمان لانا‘‘ پھرسوال ہوا اس کے بعدکس عمل کادرجہ ہے؟ فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘ پھرسوال کیا گیاکہ اس کے بعد ؟توآپ نے فرمایا کہ ’’حج مقبول۔ ‘‘  [صحیح بخاری ،الحج : ۱۵۱۹]

حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: یارسول اللہ! ہمارے خیال کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ افضل ترین عمل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’تمہارے یعنی عورتوں کے لئے افضل ترین عمل حج مبرورہے ۔‘‘[صحیح بخاری ،الحج : ۱۵۲۰]

حج کی فضیلت کے متعلق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جوشخص حج کرے اور دوران حج شہوت انگیز اوراخلاق سے گری ہوئی باتوں سے پرہیز کرے ،نیز اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اپنے آپ کومحفوظ رکھے ،توگناہوں سے ایسے صاف ہو جاتا ہے، جیسے آج ہی اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا۔‘‘    [صحیح بخاری، الحج: ۱۵۲۱]

ہمارے نزدیک حج مبروریہی ہے کہ جس حج میں مذکورہ بالافضیلت مل جائے ،یعنی اسے کامل آداب وشرائط کے ساتھ اس طرح اد اکیاجائے کہ انسان کے سابقہ گناہ دھل جائیں اور آیندہ ان سے اجتناب کاخیال کرے، ویسے محدثین وعلما نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن کی وضاحت حسب ذیل ہے :

٭  وہ حج جس کے دوران کسی گناہ کاارتکاب نہ کیاجائے ،حج مبرورکہلاتا ہے ۔

٭  اس سے مراد وہ حج ہے۔ جوعند اللہ مقبول ہوجائے اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ آیندہ اسے گناہوں سے نفرت ہوجائے ۔

٭  وہ حج ہے جس میں ریاکاری ،شہرت ،فحاشی ،لڑائی جھگڑانہ کیاگیاہو۔

٭  حج مبرور یہ ہے کہ آدمی پہلے کی نسبت بہتر ہوکر لوٹے اورگناہوں کی کوشش نہ کرے۔

٭  حسن بصری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حج مبروریہ ہے کہ انسان اس کے بعد دنیاسے بے رغبت اورآخرت کاطلبگار بن جائے۔ درحقیقت حج میں تمام امور بالاشامل ہوتے ہیں ۔     [مرعاۃ المفاتیح:۶/۱۹۰]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:226

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ