السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم اپنے فوت شدہ بھائی کی طرف سے حج بدل کراناچاہتے ہیں اس سلسلہ میں ہم نے اپنے قابل اعتماد قریبی رشتہ دار سے رابطہ قائم کیاجومکہ مکرمہ میں رہتے ہیں اورانہیں پیشکش کی کہ اگر وہ ہمارے بھائی کی طرف سے حج بدل کریں تواس سلسلہ میں اٹھنے والے جملہ اخراجات ہم برداشت کریں گے۔انہوں نے جواب دیا کہ میں حج بدل کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن کسی قسم کاخرچہ وغیرہ نہیں لوں گا کیااس صورت میں ہمارے بھائی کی طرف سے حج بدل ہوجائے گا یاپاکستان سے کسی کوحج کے لئے بھیجنا ضروری ہے؟ کتا ب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حج بدل کے سلسلہ میں کفایت شعاری سے کام نہیں لیناچاہیے ،بلکہ کھلے دل سے اس کے اخراجات برداشت کئے جائیں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ جوساتھی حج بدل کرناچاہتے ہیں وہ پہلے حج کرچکے ہوں، پھر جس کی طرف سے حج بدل کیاجارہاہے اس کی جائے سکونت کااعتبار کیاجائے کہ اگر وہ حج کرتا توگھر سے لے کر واپس آنے تک کتنے اخراجات درکار ہوں گے اتنے اخراجات برداشت کرناضروری ہیں، خواہ کسی کوپاکستان سے بھیج دیا جائے یامکہ مکرمہ سے کسی کوحج بدل پرآمادہ کر لیا جائے، وہاں پررہنے والے کوحج بدل کی پیشکش کرناکہ ہم اس کے اخراجات برداشت کریں گے ۔مفت حج بدل کے مترادف ہے، اس لئے ہمارے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ پاکستا ن سے کسی نیک سیرت نمازی کاانتخاب کیاجائے اوراس کے گھر سے گھر واپس آنے تک کے اخراجات برداشت کئے جائیں ۔اس کے علاوہ بھی اس کی خدمت کی جائے تاکہ خوش دلی سے اس فریضہ کوسرانجام دے۔ اس سلسلہ میں مکہ میں کسی رہنے والے کوحج بدل کرنے کے لئے آمادہ کرنا اورپھروہاں کے حساب سے اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کرنا شاید جائز تو ہولیکن کسی صورت میں بہتر نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم بالصواب]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب