ہفت روزہ اہل حدیث یکم جمادی الاول 1402ھ شمارہ 9 کے صفحہ 5 پر علامہ عزیز زبیدی صاحب مدظلہ یاک سوال کہ ’’ایک آدمی توبہ کرتا ہے کسی گناہ سے ‘ کچھ عرصہ بعد وہی گناہ اس سے پھر ہو جاتا ہے تو اب سابقہ گنا ہ بھی لوٹ آئے گا یا صرف وہی گناہ ہو گا جو دوسری بار اس سے ہو گیا‘‘ اس کے جواب میں علامہ جواب تحریر فرماتے ہیں کہ ب(صفحہ گیارہ ) ’’توبہ کے بعد جو گنا سرزد ہوجاتا ہے اس کی بنا پر پہلے گناہ عود نہیں کرتے ۔ کیونکہ توبہ کے بعد وہ گناہ باقی نہیں رہتے ۔ التائب من الذنب کمن لاذنب له.
جب گناہ رہا ہی نہیں تو اس کے لوٹ آنے کا احتمال نہ رہا ۔ ‘‘ براہ کرم تحریر فرمائیں کہ علامہ محترم کی بات کیا درست ہے ؟
علامہ موصوف مدظلہ العالی کی یہ بات بالکل درست ہے اور صواب ہے ۔ شارحین نے اس حدیث کے معنی میں لکھا ہے گناہ نہ کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ پر مؤاخذہ نہیں کرے گاچنانچہ كمن لاذنب له اى فى عدم المؤخذة بل يزيد عليه بان ذنوب التائب تبدل حسنات . ( مشكوة المصابيح حاشيه نمبر 10- ص206)كہ ’’سچی توبہ کرنے پر اس گناہ کا مواخذہ نہیں ہو گا ۔ نہ صرف اس پرانے گناہ پر مواخذہ نہیں ہو گا بلکہ سچی توبہ کرنے میں اس گناہ کے عوض تائب کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے ۔
’’ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ‘‘
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں : دوسرا قول یہ ہے سچی توبہ کرنےوالا کے ناہ اعمال سے برائیوں کو مٹا کر ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جائیں گی ۔ یہ مطلب صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے اور بہت سے صحابہ کا قول بھی یہی ہے ۔ جیسا کہ تفسیر ابن کثیر 3ص 327) میں حضرت ابو ذر سے بحوالہ صحیح مسلم ایک لمبی حدیث تحریر ہے کہ آخر جنتی سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے تیری ہر برائی کی جگہ نیکی عطا کی گئی ہے ۔ فيقال فان لك بكل شيئة حسنة . (تفسير ابن كثير ص327ج3)
علاوه ازیں آنحضرت ﷺ نے توبہ اور استغفار کو گناہوں کی صیقل (ریتی ) قرار دیا ہے ، یعنی جس طرح ریتی لوہے کے زنگا کو ختم کر دیتی ہے اسی طرح توبہ گناہوں کاوجود مٹا دیتی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ۔