کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس صورت مسئلہ میں ایک منقول کے جائے قتل پر یعنی جہاں قتل کیا گیا ہو ۔ ایک مصنوعی قبربنائی جائے پھر اس قبر پر جھنڈے پتھر ، جھاڑو اورتبرک کے لیے پانی کا تالاب بھی موجود ہو ، نیز اس قبر کے ساتھ ایک مسجد برائے عبادات الہی بنائی جائے تو کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ اوراگر اس قبر کو ختم کیا جائے اور باقی اشیاء تبرک موجود ہوں تو پھر اس مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
لیکن اگر قبر کو بھی ختم کیا جائے اور یہ باقی اشیاء تبرک کو بھی ختم کیا جائے ۔ جس کا کوئی نشان باقی نہ رہ جائے اور اس قبر والی جگہ کو بھی مسجد میں شامل کیا جائے کہ قبر کا کوئی نشان نہ رہے تو پھر نماز پڑھنا اس مسجد میں درست ہے یا نا درست ؟
واضح ہو کہ قبر اصلی یا مصنوعی اور نقلی وہ بہر حال قبر ہی معلوم ہوتی ہے خصوصاً جب اس پر جھنڈے ،پتھر ، جھاڑو اور پانی کے تالاب کا اہتمام موجود ہو تو دیکھنے والا اسے بظاہر قبر ہی تصور کرے گا اور قبر کے اوپر یا قبر کے پاس نماز پڑھنا ازروئے احادیث صحیحہ منع اور ناجائز ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو مرثد غنوی سے مروی ہے :
يعنی ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو اور نہ اوپر بیٹھو۔ ‘‘
یعنی’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمین تمام کی تمام مسجد ہے مگر قبرستان اور حمام مسجد نہیں ہے ۔‘‘
اور قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ ہے جس سے سخت اندازہ میں ممانعت فرمائی گئی ہے :
یعنی حضرت جندب بن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ کی وفات سے پانچ روز پہلے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : اگلے لوگ اپنے انبیاء اور بزرگوں کی قبروں کو مسجد بناتے تھے ۔ خبر دار !تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا میں تمہیں اس کام سے منع کرتا ہوں ۔‘‘
ان تینوں صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور قبرستان کے پاس بنائی گئی مسجد میں نماز نہیں ہوتی ۔ اگر مصنوعی قبر کو اکھاڑ دیا جائے اور باقی خرافات کو قائم رکھا جائے تو پھر بھی اس مسجد میں نماز جائز نہ ہو گی ۔ کیونکہ یہ صورت ’’تھان‘‘ بن چکی ہے اور تھانوں میں عبادت منع ہے ۔ ہاں اگر اس مصنوعی قبر اور متعلقہ تمام خرافات یعنی جھنڈا ،جھاڑو اور نام نہاد تبرک کے تمام اثرات اکھاڑ دئیے جائیں اور مسجد کو باقی رکھا جائے تو پھر اس میں نماز بلاشبہ جائز ہو گی ۔