السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال 1:حضور اکرم ﷺ مختار کل تھے یا نہیں ؟
سوال2: ایک شخص نے دوران گفتگو یہ کہا امام ابوحنیفہ کی کتاب میں گپ بازی ہے کیا ایسا کہنا درست ہے ؟
سوال3: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس صورت مسئلہ میں ایک منقول کے جائے قتل پر یعنی جہاں قتل کیا گیا ہو ۔ ایک مصنوعی قبربنائی جائے پھر اس قبر پر جھنڈے پتھر ، جھاڑو اورتبرک کے لیے پانی کا تالاب بھی موجود ہو ، نیز اس قبر کے ساتھ ایک مسجد برائے عبادات الہی بنائی جائے تو کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ اوراگر اس قبر کو ختم کیا جائے اور باقی اشیاء تبرک موجود ہوں تو پھر اس مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
لیکن اگر قبر کو بھی ختم کیا جائے اور یہ باقی اشیاء تبرک کو بھی ختم کیا جائے ۔ جس کا کوئی نشان باقی نہ رہ جائے اور اس قبر والی جگہ کو بھی مسجد میں شامل کیا جائے کہ قبر کا کوئی نشان نہ رہے تو پھر نماز پڑھنا اس مسجد میں درست ہے یا نا درست ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺ مختار کل نہ تھے ، قرآن مجید میں بیسوں مقامات پر اس شرکیہ عقیدہ کی تردید موجود ہے ۔ چند آیات قرآن مع ترجمہ پیش خدمت ہیں :
﴿وَإِذا تُتلى عَلَيهِم ءاياتُنا بَيِّنـتٍ قالَ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنَا ائتِ بِقُرءانٍ غَيرِ هـذا أَو بَدِّلهُ قُل ما يَكونُ لى أَن أُبَدِّلَهُ مِن تِلقائِ نَفسى إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحى إِلَىَّ إِنّى أَخافُ إِن عَصَيتُ رَبّى عَذابَ يَومٍ عَظيمٍ ﴿١٥﴾... سورة يونس
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے یا اس میں کچھ ترمیم کردیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔‘‘
﴿ لَيسَ لَكَ مِنَ الأَمرِ شَىءٌ أَو يَتوبَ عَلَيهِم أَو يُعَذِّبَهُم فَإِنَّهُم ظـلِمونَ ﴿١٢٨﴾... سورة آل عمران
’’اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وه ظالم ہیں ‘‘
یہ آیت غزوہ احد کی وقتی ہزیمت کے ایک واقعہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی ،نیز جنگ احد کے کافر قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینے پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں عتاب فرمایا:
﴿ما كانَ لِنَبِىٍّ أَن يَكونَ لَهُ أَسرى حَتّى يُثخِنَ فِى الأَرضِ... ﴿٦٧﴾... سورة الأنفال
’’ نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے۔‘‘
﴿لَولا كِتـبٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُم فيما أَخَذتُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٦٨﴾... سورة الأنفال
’’ اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی ۔‘‘
﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى ضَرًّا وَلا نَفعًا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ...﴿٤٩﴾... سورة يونس
’’ آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لیے تو کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا اللہ کو منظور ہو۔ ‘‘
﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ...﴿١٠٧﴾... سورة يونس
اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وه تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں۔‘‘
(7)ایک بار جناب نبی کریم ﷺ کسی وجہ سے شہد کو حرام کر بیٹھے ، اللہ نے فوراً نوٹس لیا ۔
﴿يـأَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبتَغى مَرضاتَ أَزوجِكَ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١﴾... سورة التحريم
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘
اسی طرح کی بیس آیات مقدسہ ہیں جو اس بارے میں بالکل صاف اور واضح ہیں کہ ہمارے پیغمبر ﷺ ہوں یا کوئی نبی ولی کوئی بھی مختار کل نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر ایک مجبور محض اور بےبس ہے ۔ کسی کی قسمت بدلنا ، کسی کی حاجت برآری کرنا یا کسی کے نفع و نقصان کامالک ہونا اللہ تعالیٰ کا ہی خاصا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ کے حق میں فہم بات ہے بلکہ قرآن عزیز کی نصوص کا بھی انکار ہے آپ ﷺہر فرض نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے ۔
اللهم لامانع لما اعطيت و لامعطى لما منعت . الخ
یعنی’’ اے اللہ !جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں ۔‘‘
جواب 2: یہ اس شخص کی گستاخانہ بات ہے جس سے اس کو توبہ کرنی چاہیے ۔ ائمہ کرام کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرنے والی گفتگو سخت جرم ہے ۔ جہاں تک حضرت امام ابو حنیفہ کی کسی تالیف کا تعلق ہے اس کے بارے میں مشہور مؤرخ مولانا شبلی نعمانی حنفی مرحوم نے سیرت النعمان میں لکھا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی طرف کسی بھی کتاب کی نسبت صحیح نہیں ، اور اگر کوئی انہوں نے تحریر فرمائی تھی تو وہ معدوم ہے ،پھر انہوں نے اس کی تفصیل لکھی ہے جو مطالعہ کے لائق ہے ۔
جواب3:واضح ہو کہ قبر اصلی یا مصنوعی اور نقلی وہ بہر حال قبر ہی معلوم ہوتی ہے خصوصاً جب اس پر جھنڈے ،پتھر ، جھاڑو اور پانی کے تالاب کا اہتمام موجود ہو تو دیکھنے والا اسے بظاہر قبر ہی تصور کرے گا اور قبر کے اوپر یا قبر کے پاس نماز پڑھنا ازروئے احادیث صحیحہ منع اور ناجائز ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو مرثد غنوی سے مروی ہے :
قال قال رسول اللهﷺ لا تصلوا الى القبور ولا تجلسوا عليها . (رواه الجماعة الاالبخارى و ابن ماجه نيل الاوطار ص150ج2)
يعنی ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو اور نہ اوپر بیٹھو۔ ‘‘
عن ابى سعيد الخدرى رضى الله عنه ان النبىﷺ قال الارض كلها مسجد الا المقبرة والحمام – رواه الخمسة الا النسائى . ( نيل الاوطار ص148ج2)
یعنی’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمین تمام کی تمام مسجد ہے مگر قبرستان اور حمام مسجد نہیں ہے ۔‘‘
اور قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ ہے جس سے سخت اندازہ میں ممانعت فرمائی گئی ہے:
عن جندب بن عبد الله البجلى قال سمعت رسول اللهﷺ قبل ان يموت بخمس وهو يقول الا ان من كان قبلكم كانوا يتخذون القبور مساجد انى انهاكم عن ذلك . (صحيح مسلم ص201ج1 و نيل الاوطار)
یعنی حضرت جندب بن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ کی وفات سے پانچ روز پہلے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : اگلے لوگ اپنے انبیاء اور بزرگوں کی قبروں کو مسجد بناتے تھے ۔ خبر دار !تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا میں تمہیں اس کام سے منع کرتا ہوں ۔‘‘
ان تینوں صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور قبرستان کے پاس بنائی گئی مسجد میں نماز نہیں ہوتی ۔ اگر مصنوعی قبر کو اکھاڑ دیا جائے اور باقی خرافات کو قائم رکھا جائے تو پھر بھی اس مسجد میں نماز جائز نہ ہو گی ۔ کیونکہ یہ صورت ’’تھان‘‘ بن چکی ہے اور تھانوں میں عبادت منع ہے ۔ ہاں اگر اس مصنوعی قبر اور متعلقہ تمام خرافات یعنی جھنڈا ،جھاڑو اور نام نہاد تبرک کے تمام اثرات اکھاڑ دئیے جائیں اور مسجد کو باقی رکھا جائے تو پھر اس میں نماز بلاشبہ جائز ہو گی ۔ واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب