سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) قادیانی کا نماز جنازہ پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

  • 12152
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 3091

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محلہ جوہر ٹاؤن میں ایک قادیانی عورت انتقال کر گئی ۔محلہ کے کچھ مسلمانوں نے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کی ، بعد میں کسی قریبی عالم دین سے انہوں نے فتوی پوچھا تو انہوں نے فرمایا:وہ شرکاء اپنے نکاح کی تجدید کروائیں ۔

 (1) کیا واقعی ان کو اسلام میں دوبارہ داخلہ کے لئے تجدید ایمان کرنا ضروری ہے؟

(2) کیا نکاح کی تجدید ضروری ہے؟

(3) یا قلبی توبہ استغفار سے کفارہ نہیں ہو سکے گا۔

برائے کرم ہماری کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرما کر ممنون ہوں تا کہ ہمارا دین ایمان بچ جائے۔ جزاکم اللہ خیرا !

سوال : نمبر 1:اگر کسی مسلمان نے کسی مرزائی کی شادی میں شرکت کی اور گواہ بن گیا تو اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ...﴿٤٠﴾... سورة الأحزاب

مشہور و معروف اور زبان دار عوام صیحح حدیث لا نبی بعدی کے مطابق قادیانی لاہوری اور ربوی مرزائی تینوں گروہ دائرہ اسلام سے خارج اور ان کے کفر پر امت کا اتفاق ہے۔ اور یہ بھی متفق علیہ امر ہے کہ کسی کافر کو مسلمان سمجھنے والا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، لہذا جن لوگوں نے اس قادیانی عورت کو مسلمان سمجھ کر اس کی نام نہاد نماز جنازہ میں شرکت کی ہے اور دعائے استغفار پڑھی ہے ، وہ بلا شبہ دائرہ اسلام سے خارج ہو کر شرعا کافر ہو گئے ہیں یعنی وہ مرتد ہیں اور ان کی بیویاں ان کے حبالہ عقدے آزاد ہو چکی ہیں ، جب تک وہ خالص توبہ کر کے دوبارہ مسلمان نہ ہوں اور تجدید نکاح نہ کریں ان کی بیویاں ان پر حرام رہیں گی۔اگر ان لوگوں نے اپنی جہالت بے علمی یا اس عورت کو مسلمان سمجھ کر نہیں بلکہ کافر سمجھ کر اور پڑوسی اور محلہ دار جان کر نماز جنازہ پڑھا ہے تو پھر کافر تو نہیں ہوئے اور نہ اس صورت میں تجدید نکاح کی ضرورت ہے، تاہم وہ فاسق ، فاجر، مداہن اور بہت بڑے گنا ہ اور سنگین قباحت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ وہ صمیم قلب اور سودا ء فواد سے توبہ نصوح کریں  اور اعتراف جرم کے ساتھ بصد الحاح و تضرع اللہ سبحانہ و تعالی ٰ سے معافی مانگیں اور آئندہ کسی بھی غیر مسلم کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے کا عہد کریں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿وَلا تُصَلِّ عَلى أَحَدٍ مِنهُم ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُم عَلى قَبرِهِ إِنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَماتوا وَهُم فـسِقونَ ﴿٨٤﴾... سورة التوبة

’’ان کافروں منافقوں میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازہ کی ہرگز نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے منکر ہو گئے اور مرتے دم تک بدکار بے اطاعت رہے۔‘‘

﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربى مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـبُ الجَحيمِ ﴿١١٣﴾... سورة التوبة

’’نبی کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کے مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘

بنا بریں سر عام علی رؤس الا شہا دان ان لوگوں پر توبہ کرنی از حد ضروری اور نا گزیر ہے ورنہ انجام بخیر نہ ہو گا۔ اگرچہ آپ کے دریافت فرمودہ سوالوں کا یکجائی جواب ہو چکا ہے تا ہم فردا فردا بھی پڑھ لیجئے۔

 (1) اگر ان لوگوں نے اس قادیانی عورت کو دل سے کافر ہ سمجھ کر اور دائرہ اسلام سے خارج جان کر اس کے جنازہ میں شرکت کی ہے تو اس صورت میں تجدید ایمان کی ضرورت نہیں ، البتہ خاص توبہ برسر میدان ضروری ہے اور اگر اس قادیانی عورت کو مسلمان سمجھ کر اس کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو پھر تجدید ایمان کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ، کیونکہ کافرہ عورت کو مسلمان عورت سمجھنا بلا زیب کفر ہے۔

(2) اگر جنازہ پڑھنے والوں نے اس عورت کو کافر سمجھتے ہوئے نماز جنازہ پڑھی ہے تو پھر تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور بصورت دیگر ان کے نکاح ٹوٹ چکے ہیں، لہذا تجدید ایمان کے ساتھ ساتھ نکاح تجدید بھی از نس ضروری ہے ورنہ محض حرام کاری کا ارتکاب ہو گا۔

(3) بلا شبہ قلبی توبہ اور استغفار کافی ہے ۔ بشرطیکہ جنازہ پڑھنے والوں کے اعتقاد میں وہ عورت کافرہ تھی۔

هذا ما عندى والله تعالىٰ اعلم بالصواب اليه المرجع والماب فى يوم الحساب -

جواب نمبر 2: کسی مرزائی کو مسلمان سمجھ کر اس کی شادی میں شرکت کرنا کفر صریح ہے اور ایسے مسلمان کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے بغیر کوئی چارہ نہیں وعنہ کافر اور مرتد مرے گا، اور اگر کسی مرزائی کو کافر سمجھ کر اس کی شادی میں شریک ہوا تو

تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوانِ کا مرتکب ہے،بنا بریں برسر میدان قلبی توبہ اور استغفار فرض ہے۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1 ص122

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ