السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک شخص جو کہ قادیانی ہے، آج سے چند دن قبل اس قادیانی کا دس دن کا بچہ مر گیاتھا ۔ اس کی نماز جنازہ ایک مسلمان نے پڑھائی ہے اور مسلمانوں نے پڑھی ہے، جو شخص امامت کرا رہا ہے اس کو معلوم ہےکہ میں قادیانی کا جنازہ پڑھا رہا ہوں اور مقتدیوں کو بھی معلوم ہے کہ ہم قادیانی بچے کا جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ ان حضرات کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ (المستفتی سرور شعیب)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح باشد کہ قادیانی ، لاہوری اور ربوی مرزائی تینوں گروہ کافر اور اسلام سے خارج ہیں۔ اور اس عقیدہ پر اجماع ہے اور یہی حکم ان کی اولاد کا ہے۔ لہذا جس طرح کسی بالغ قادیانی مرد کا جنازہ پڑھنا کفر ہے اور اسی طرح نابالغ قادیانی کا جنازہ پڑھنا بھی کفر ہے۔ کیونکہ دنیا میں اولاد والدین کے تابع ہے لہذا جو حکم بلحاظ اسلام اور کفر والدین کا ہے وہی حکم ان کی نا بالغ اولاد پر بھی لاگو ہوگا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:
﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمًا ﴿٤٠﴾... سورةالأحزاب
’’محمد ﷺ تم میں کسی مرد کا باپ نہیں ہے۔ البتہ وہ اللہ کا پیغمبر ہے اور پیغمبر وں کا ختم کرنے والا ، اور ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ۔‘‘
اس آیت کا لفظی ترجمہ ہے البتہ وہ اللہ کا رسول ہے اورنبیوں کا ختم کرنے والا۔ اس سے قطعی طور پر معلوم ہوا کہ محمد ﷺ رہتی دنیا تک اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے بعد نبی آنے والا نہیں ۔
مندرجہ ذیل احادیث صحیحہ میں بھی یہی معنی بیان کیا گیا ہے:
(1)۔ «عن الطفيل بن ابى بن كعب عن ابيه عن النبى ﷺمثلي في النبيين، كمثل رجل بنى دارا، فأحسنها و أكملها و أجملها، وترك فيها موضع لبنة لم يضعها، فجعل الناس يطوفون بالبنيان و يعجبون منه، و يقولون: لو تم موضع هذه اللبنة، فأنا في النبيين موضع تلك اللبنة.اخرجه احمد بن حنبل واللفظ له ورواه الترمذى وقال حسن صحيح» (تفسیر ابن کثیر ج3ص 509)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دوسرے نبیوں میں میری مثال ایک ایسے مکان کی ہے جو ہر طرح سے کامل مکمل اور خوب صورت ہو مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہو ، فرمایا :میں وہ آخری اینٹ ہوں جس کے بعد مکان نبوت ہر طرح سے کامل مکمل ہو گیا ہے اور اب اس میں کوئی رخنہ باقی نہیں رہا۔‘‘
(2)« عن انس بن مالك قال قال رسول الله ﷺ إن الرسالة والنبوة قد انقطعت ولا رسول بعدي ولا نبي- مسند احمد ورواه الترمذى وقال صحيح غريب » (تفسير بن كثير ج3ص 509)
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، پس میرے بعد کوئی رسول ہو گا اور نہ نبی۔‘‘
(3) «عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال فضلت على الأنبياء بست أعطيت جوامع الكلم ونصرت بالرعب وأحلت لي الغنائم وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا وأرسلت إلى الخلق كافة وختم بي النبيون» (رواہ مسلم ج2 مشکوۃ جلد2ص 512،تفسیر بن کثیر جلد3 ص 510)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے دوسرے انبیاء ؑ پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے، مجھے جامع کلمات مرحمت کئے گئے ہیں اور میری رعب کے ساتھ مدد فرمائی گئی ہے۔ غنیمتیں حلال کی گئی ہیں اور زمین کو میرے لئے مسجد اور اس کی مٹی سے تیمم کی اجازت دی گئی ہے اور مجھے قیامت تک کے لئے تمام انسانوں اور جنوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور میرے ساتھ نبیوں کی آمد ختم کر دی گئی ہے۔‘‘
(4) «عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مثلي ومثل الأنبياء كمثل رجل بنى دارا فأكملها وأحسنها إلا موضع لبنة فكان من دخلها فنظر إليها قال ما أحسنها إلا موضع هذه اللبنة فأنا موضع اللبنة ختم بي الأنبياء عليهم الصلاة والسلام»(رواه البخاري ومسلم والترمذي۔(تفسیر ابن کثیر جلد3ص 9)
(5) «عن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لي أسماء أنا محمد وأنا أحمد وأنا الماحي الذي يمحو الله بي الكفر وأنا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي وأنا العاقب الذي ليس بعدي نبي» (صحیح البخاری جلد1 ص 501)
’’حضرت جبیر بن مطعم رضی الله تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :میرے پانچ نام ہیں میں محمد ﷺ ہوں ، میں احمد ﷺ ہوں، میں ماحی ﷺ ہوں کہ میری وجہ سے اللہ تعالی کفر کو مٹا دے گا۔ میرا نام حاشر ﷺ ہے کہ میرے بعد لوگوں کا حشر ہو گا۔ میں وہ عاقب ﷺ ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
ان احادیث صحیحہ اور ان جیسی دوسری متعدد احادیث صیححہ متواترہ سے ثابت ہے کہ ہر طرح کی نئی نبوت رسول اللہ ﷺ کے بعد ختم ہوچکی ہے، اب آپ کے بعد کوئی ظلی، بروزی، تشریعی، غیر تشریعی مستقل یا تابع نبی ہرگز نہیں آئے گا اور جو شخص احرا ء نبوت کا قائل ہے ، وہ اسلام سے خارج اور کافر ہے اور اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے اور اس مسئلہ پر سلف و خلف ، دور حاضر کے اکابر علما ء ، فقہا ء، مفتیان کرام کے علاوہ دور حاضر کی کئی اسلامی ملکوں کی عدالتہائے عظمی یعنی سپریم کورٹ نے ایسے عقیدے کے حامل کو کافر اور خارج از اسلام قرار دے دیا ہے۔
امام ابن کثیر تصریح فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَخْبَرَ اللَّه تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابه وَرَسُوله صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّنَّة الْمُتَوَاتِرَة عَنْهُ أَنَّهُ لَا نَبِيّ بَعْده لِيَعْلَمُوا أَنَّ كُلّ مَنْ اِدَّعَى هَذَا الْمَقَام بَعْده فَهُوَ كَذَّاب أَفَّاك دَجَّال ضَالّ مُضِلّ .... الخ( تفسیر القرآن العظیم جلد3 ص 510)
کہ اللہ تعالی نے قرآن عزیز میں اور رسول اللہ ﷺ نے متواترہ احادیث میں یہ وضاحت فرما دی ہے کے میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور جو نبوت کا دعوی کرے گا وہ کذاب ، مفتری دجال، (فریب کار) خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہو گا۔
شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح حفظہ اللہ فرماتے ہیں :اور پھر احادیث صیححہ میں اس خاتم النبین کی تشریح کر دی گئی ہے جس کے بعد کسی التباس کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ حضرت عیسیٰ ؑ نزول عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ آپ ہی کی شریعت پر چلیں گے۔ آج تک پوری امت کا یہ عقیدہ چلا آیا ہے پس ختم نبوت کا منکر قطعی کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔
شیخ السلام مولانا ابو الوفا ء ثنااللہ امرتسری لکھتے ہیں :اس میں شک نہیں کہ مرزائی گروہ عربی اسلام سے بالکل الگ ہے۔ ان کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کےاقوال و افعال کو سند مانتے ہیں بلکہ احادیث سے بھی مقدم سمجھتے ہیں اور اس لیے ایسے گروہ کے ساتھ کوئی معاملہ بحیثیت مسلمان کے نہیں کرنا چاہیے ۔(فتاوی ثنائیے جلد1 ص 375)
مذکورہ بالا احادیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں : ہر شخص رسول اللہ ﷺ کی بزرگی اور خاتم الانبیا ء ہونے کا اور قیامت کے دن شفاعت کرنے کا منکر ہو تو بموجب آیت مابعد الحق الا الضلال گمراہ ، کافر خالد مخلد دوزخ کا کندہ بن کر رہے گا۔
المجيب ابوالبركات محمد عبد الحى تقى عرف صدر الدين حيدر آبادى – الجواب صحيح والراى نجيح ومنكرها مردود كافر حرره السيده نذير حسين عفى عنه . (فتاوى نذريه جلد1 ص 12)
خلاصہ کلام یہ کہ قادیانی ، لاہوری اور ربوی تمام مرزائی کافر اور اسلام سے خارج ہیں اور اس پر قرآن اولیٰ خلافت صدیقی سے لے کر آج تک تمام اسلامی فرقوں کا اجماع ہے۔ لہذا ان کے کفر میں شک کرنے والا، ان کی شادی غمی میں شرکت کرنے والا ، ان کا جنازہ پڑھانے والا اور پڑھنے والا بھی انہی کے حکم میں ہے۔(ان کے نکاح بھی ٹوٹ چکے ہیں ) جب تک یہ جنازہ پڑھا نے اورپڑھنے والے توبہ نہ کریں۔اس وقت تک ان کا مکمل بائیکاٹ شرعا فرض ہے۔ اور ان کو مسلمان گمان کرنا بھی جائز نہیں ، ایسے لوگوں کے ساتھ کھانا ، پینا، رشتہ داری کرنا اور ان کی تقریبات میں شرکت ہرگز جائز نہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب