السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
روزے کو فاسد کر دینے والی چیزیں کون کون سی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزے کو فاسد کر دینے، یعنی توڑ دینے والی چیزیں حسب ذیل ہیں: (۱)جماع (۲)کھانا (۳)پینا (۴)شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا (۵)جو چیز کھانے پینے کے معنی میں ہو (۶)جان بوجھ کر قے کرنا (۷)سینگی لگوانے سے خون کا نکلنا (۸)حیض و نفاس کے خون کا جاری ہونا۔ کھانے پینے اور جماع سے روزے کے ٹوٹ جانے کی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَالـٔـنَ بـشِروهُنَّ وَابتَغوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُم وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى الَّيلِ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’اب تم کو اختیار ہے کہ ان سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے۔ (یعنی اولاد) اس کو (اللہ سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے، پھر روزہ رکھ کر اسے رات تک پورا کرو۔‘‘
شہوت کے ساتھ منی کے انزال سے روزہ ٹوٹ جانے کی دلیل روزے کے بارے میں یہ حدیث قدسی ہے:
«يَدعُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِی» (صحيح البخاري، الصوم، باب فضل الصوم، ح: ۱۸۹۴)
’’وہ میری وجہ سے اپنے کھانے پینے اور شہوت کو چھوڑتا ہے۔‘‘
اور انزال شہوت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«فِی بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ قَالُوا يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَيَأتِی أَحَدُنَا شَهْوَتَه وَيَکُونُ لَه فِيهَا أَجْر؟ٌ قَالَ أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِی الحَرَامٍ أَکَانَ عَلَيْهِ وِزْرٌ فَکَذٰلِکَ إِذَا وَضَعَهَا فِی الْحَلَالِ کَانَ لَه أَجْرًا»(صحيح مسلم، الزکاة، باب بيان اسم الصدقة يقع علی کل نوع من المعروف، ح: ۱۰۰۶)
’’تم میں سے کسی ایک کے اپنی شرم گاہ استعمال کرنے میں بھی صدقہ ہے‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے جب کوئی اپنی شہوت کو پورا کرتا ہے، تو اس میں بھی اس کے لیے اجر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ بتاؤ اگر وہ حرام میں اسے رکھتا تو کیا اسے گناہ نہ ہوتا؟ پھر اسی طرح جب وہ اسے حلال میں رکھتا ہے، تو اسے اس کا اجر و ثواب ملتا ہے۔‘‘
جس چیز کو رکھا جاتا ہے، وہ اچھلتی ہوئی منی ہے۔ اسی وجہ سے راجح قول یہ ہے کہ مذی سے روزہ فاسد نہیں ہوتا خواہ وہ شہوت اور جسم سے جسم لگانے کی صورت میں خارج ہوئی ہو بشرطیکہ جماع نہ ہو۔ پانچویں چیز جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، وہ ہے جو کھانے پینے کے معنی میں ہو، مثلاً: وہ انجکشن جو غذائیت کا کام دے اور جس کے ساتھ انسان کھانے پینے سے بے نیاز ہو جائے۔ یہ اگرچہ کھانا پینا تو نہیں لیکن یہ کھانے پینے کے معنی میں ہے، کیونکہ اس سے انسان کھانے پینے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور جو کسی چیز کے معنی میں ہو، اس کے لیے وہی حکم ہوتا ہے جو اس اصل چیز کا ہوتاہے۔ وہ انجکشن جو غذائی ضرورت کو پورا کرے نہ وہ کھانے پینے کے معنی میں ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، خواہ انجکشن رگ میں لگایا جائے یا پٹھوں میں یا جسم میں کسی دوسری جگہ۔ چھٹی چیز جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے وہ جان بوجھ کر قے کرنا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَن استقاع عمدا فليقض ومنْ ذَرَعَهُ الْقَیء فلا قضاء عليهِ» (سنن ابي داؤد، الصوم، باب الصائم يستقیء عمدا، ح: ۲۳۸۰ وجامع الترمذی، الصوم، باب ماجاء فيما استقاء عمدا، ح: ۷۲۰)
’’جو شخص جان بوجھ کر قے کرے، اسے قضا دینی چاہیے اورجسے خود بخود قے آجائے، اس پر قضا لازم نہیں ہے۔‘‘
اس میں حکمت یہ ہے کہ جب انسان قے کرے گا، تو وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے خالی کر دے گا اور جسم اس چیز کی ضرورت محسوس کرے گا، جو اس خلا کو پر کرے، لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ فرض روزے میں انسان کے لیے قے کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ قے کر کے وہ اپنے واجب روزے کو فاسد کر لے گا۔ ساتویں چیز جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، وہ سینگی کے ذریعے سے خون کا نکلوانا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«اَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ» (صحيح البخاري معلقا، الصوم، باب الحجامة والقیء للصائم وجامع الترمذی، الصوم، باب کراهية الحجامة للصائم، ح: ۷۷۴)
’’سینگی لگانے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘
آٹھویں چیز جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، وہ حیض و نفاس کے خون کا نکلنا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بارے میں فرمایا ہے:
«اَلَيْسَ اِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ» (صحيح البخاري، الحيض، باب ترک الحائض الصوم، ح: ۳۰۴ وصحيح مسلم، باب بيان نقصان الايمان بنقض الطاعات ح: ۷۹)
’’جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو کیا وہ نماز اور روزہ نہیں چھوڑتی؟‘‘
اہل علم کا اجماع ہے کہ حیض و نفاس والی عورت کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔ ان مذکورہ بالاتمام چیزوں کے ساتھ روزہ فاسد ہو جاتا ہے بشرطیکہ:٭ اسے یاد ہو۔ ٭اس کا قصد وارادہ ہو۔ ان شرائط کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ اسے حکم شرعی اور وقت کے بارے میں علم ہو۔ اگر کوئی شخص جاہل ہے اور اسے حکم شرعی معلوم نہیں یا اسے وقت کا علم نہیں تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
«قَدْ فَعَلْتُ» (صحيح مسلم، الايمان، باب بيان تجاوز الله تعالی عن حديث النفس والخواطر بالقلب اذا لم تستقر وبيان انه سبحانه و تعالی لم يکلف الا ما يطاق… ح: ۱۲۶ وجامع الترمذی، تفسير القرآن، باب سورة البقرة، ح:۲۹۹۲)
’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم...﴿٥﴾ ... سورة الأحزاب
’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے)۔‘‘
یہ دو دلیلیں عام ہیں جب کہ روزے کے بارے میں خاص دلائل بھی سنت سے ثابت ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے روزہ رکھا اور اپنے تکیے کے نیچے اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی دو رسیاں رکھ لیں جن میں سے ایک سیاہ اور دوسری سفید تھی اور انہوں نے کھانا پینا شروع کر دیا حتیٰ کہ سفید رسی جب سیاہ سے واضح ہوگئی تو وہ کھانے سے رکے۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سارا ماجرا بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ سفید اور سیاہ سے مراد معروف دھاگے نہیں ہیں بلکہ سفید دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اور سیاہ دھاگے سے مراد رات کی سیاہی ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو اس روزے کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا کیونکہ انہیں حکم کا علم نہیں تھا اور انہوں نے آیت کریمہ کے یہی معنی سمجھے۔
جہاں تک وقت کے بارے میں جہالت کا تعلق ہے، تو صحیح بخاری میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«أَفْطَرْنَا عَلَی عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَيْمٍ ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ» (صحيح البخاري، الصوم، باب اذا افطر فی رمضان ثم طلعت الشمس، ح: ۱۹۵۹)
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک ابر آلود دن میں روزہ افطار کیا تو پھر سورج نکل آیا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قضا ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اس صورت میں اگر قضا ادا کرنا واجب ہوتی تو آپ انہیں ضرور اس کا حکم دیتے اور اگر آپ نے انہیں حکم دیا ہوتا تو یہ بات امت تک ضرور پہنچی ہوتی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجر
’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
جب یہ بات اسباب کی فراوانی کے باوجود امت تک نہیں پہنچتی، تو معلوم ہوا کہ آپ نے اس کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم نہیں دیا اور جب آپ نے انہیں قضا ادا کرنے کا حکم نہیں دیا تو معلوم ہوا کہ یہ واجب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سویا ہوا انسان بیدار ہو اور وہ یہ سمجھ کر کھانا پینا شروع کر دے کہ ابھی رات ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ فجر تو طلوع ہو چکی تھی، تو اس پر ادائے قضا نہیں ہوگی کیونکہ اسے وقت کے بارے میں معلوم نہ تھا۔
٭ دوسری شرط یہ ہے کہ اسے یاد ہو۔ یاد نسیان کی ضد ہے، لہٰذا اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس پر ادائے قضا لازم نہ ہوگی، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ نَسِیَ وَهُوَ صَائِمٌ فَأَکَلَ أوَشَرِبَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللّٰهُ وَسَقَاهُ» (صحيح البخاري، الصوم، باب اذا اکل او شرب ناسيا، ح: ۱۹۳۳ وصحيح مسلم، الصيام، باب اکل الناسی وشربه وجماعة لا يفطر، ح: ۱۱۵۵ واللفظ له)
’’جو روزہ دار بھول کر کھا یا پی لے تو اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اسے کھلایا پلایا ہے۔‘‘
٭ تیسری شرط قصد و ارادہ ہے، یعنی انسان نے اختیار سے اس فعل کو سر انجام دیا ہو اور اگر وہ غیر مختار تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے، خواہ اسے مجبور کر دیا گیا ہو یا مجبور نہ کیا گیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جسے کفر پر مجبور کر دیا گیا ہو، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـنِ وَلـكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾... سورة النحل
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، ما سوا اس کے جسے (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو، بلکہ وہ جو دل سے کفر کرے، تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔‘‘
اگر کفر جبر و اکراہ کی صورت میں معاف ہو سکتا ہے، تو اس سے کم تر چیز بالاولیٰ معاف ہو سکتی ہیں اور حدیث میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اِنَّ اللّٰهَ رفعَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُکْرِهُوا عَلَيْهِ» (سنن ابن ماجه، الطلاق، باب طلاق المکره والناسی، ح: ۲۰۴۵)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا، نسیان اور جس پر انہیں مجبور کر دیا گیا ہو اس کو معاف فرما دیا ہے۔‘‘
اسی طرح اگر غبار اڑ کر روزہ دار کی ناک میں پہنچ جائے اور وہ اپنے حلق میں اس کا ذائقہ محسوس کرے اور وہ اس کے معدے تک پہنچ جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس نے قصد وارادے سے اسے استعمال نہیں کیا۔ اسی طرح اگر اسے روزہ توڑنے پر زبردستی مجبور کر دیا گیا ہو اور اس نے توڑ لیا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ وہ غیر مختار ہے۔ اسی طرح اگر اسے احتلام میں انزال ہوگیا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ سوئے ہوئے شخص کا کوئی قصد وارادہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کسی مرد نے اپنی عورت کو مجبور کر کے اس سے جماع کر لیا تو عورت کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ وہ غیر مختار ہے۔
یہاں ایک مسئلہ سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرے جب کہ روزہ اس پر واجب ہو تو اس جماع کی وجہ سے پانچ امور لازم آتے ہیں: ٭گناہ۔ ٭ باقی دن روزے کے ساتھ گزرانا۔٭روزے کا فاسد ہو جانا۔ ٭اس کی ادائے قضا کا لازم ہونا۔٭اس پر کفارہ واجب ہونا۔
اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ اس جماع کے نتیجے میں لازم آنے والے امور کے بارے میں اسے علم ہو یا نہ ہو، یعنی آدمی جب رمضان کے روزے میں جماع کر لے اور روزہ اس پر واجب ہو لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کفارہ اس پر واجب ہے تو اس پر جماع کے سابقہ احکام مرتب ہوں گے کیونکہ اس نے روزے کو فاسد کرنے والے کام کا ارتکاب قصد وارادہ کے ساتھ کیا ہے اور روزے کو فاسد کرنے والے کام کے ارتکاب سے اس پر اس سے متعلق احکام مرتب ہوں گے بلکہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں تو ہلاک ہوگیا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
«مَا اَهْلَکَکَ» (صحيح البخاري، الصوم، باب اذا جامع فی رمضان… الخ، ح: ۲۱۹۳ وصحيح مسلم، الصيام، باب تغليظ الجماع فی نهار رمضان علی الصائم: ۱۱۱۱)
’’تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا کہ میں نے رمضان میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارے کا حکم دیا، حالانکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس پر کفارہ ہے یا نہیں۔ اور ہم نے جو یہ کہا کہ ’’روزہ اس پر واجب ہو۔‘‘ تو یہ ہم نے مسافر کے لیے غیر واجب حالتوں سے احتراز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسافر رمضان میں حالت روزہ میں جماع کر لے تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہوگا، مثلاً: اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں سفر کر رہا ہو، وہ دونوں روزہ دار ہوں اور جماع کرلیں تو اس صورت میں ان پر کفارہ نہیں ہوگا کیونکہ مسافر اگر روزہ رکھ لے تو اس کے لیے لازم نہیں ہے کہ اسے پورا کرے۔ وہ اگر چاہے تو روزہ پورا کرے اور اگر چاہے تو روزہ چھوڑ دے اور بعد میں اس کی قضا ادا کر لے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب