السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پچھلے دنوں جب پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں قیامت خیز زلزلہ آیا توہر درددل رکھنے والے پاکستانی اور غیرپاکستانی نے اس کی ٹیسیں محسوس کیں ،ملک بھر سے اہل ثروت حضرات نے فون پررابطہ کیا کہ کیا ماہ رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنے فاقہ زدہ متاثرین کامال زکوٰۃ کے ذریعے تعاون کیاجاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشہ اللہ کی طرف سے ایسی نشانیاں ہمارے حکمرانوں اورعوام کی عبرت کے لئے ہوتی ہیں، تا کہ ہم اپنی روش اور طرززندگی پرنظرثانی کریں۔ ایسے حالات میں کئی ایک پہلوؤں سے ہمارا امتحان ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ اپنی عملی زندگی کوبھی سنوارنے کی کوشش کریں۔ یقینا اس قسم کے مصائب وآلام ہماری بداعمالی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں ہمارا فرض ہے کہ سماوی اورزمینی آفتوں سے متاثرین کے ساتھ دل کھول کر تعاون کریں۔ صرف مال زکوٰۃ سے ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی اپنی جیب سے ان پرایثار کریں۔ ایک دفعہ قبیلۂ مضر کے فاقہ زدہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے ننگے بدن لیکن جذبہ جہاد سے سرشار تلوار یں لٹکائے ہوئے صرف اپنی تہبند پہنے ہوئے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی حالت زار کودیکھا توانتہائی پریشان ہوئے۔ اس پریشانی کے عالم میں آپ کارنگ فق ہوگیا۔آپ نے ان سے دست تعاون بڑھانے کے لئے بایں الفاظ اپیل کی ’’لوگو! نقد مال، غذائی مواد اورپہننے کے لئے لباس وغیرہ سے اپنے بھائیوں کے ساتھ تعان کرو، حتی کہ اگرکسی کے پاس کھجور کاایک ٹکڑا دینے کی ہمت ہے تووہ بھی ان پرصدقہ کردے ۔ ‘‘اس اپیل کایہ اثر ہوا کہ پہننے کے لئے کپڑوں اورکھانے پینے کی اشیاء کے مسجد نبوی میں دوا لگ الگ ڈھیر لگ گئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی دریادلی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اورآپ کاچہرہ انور خوشی سے سونے کی طرح چمک اٹھا۔ [صحیح مسلم ،الزکوٰۃ:۱۰۱۱]
حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کی ضمانت دی، پھر اس کاذمہ دارقرار پایااور اس تاوان کے نیچے دب گیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہ میرے ساتھ تعاون کریں آپ نے فرمایا کہ ’’تم میرے پاس ٹھہرو جب صدقہ کا مال آئے گا توتجھے بقدر حصہ دیا جائے گا، پھر اس مناسبت سے آپ نے اسے بطور وعظ فرمایا: ’’صدقہ خیرات سے متعلق صرف تین شخص سوال کرسکتے ہیں ان میں سے ایک وہ شخص جسے ایسی آفت نے دبوچ لیاہو کہ اس کاتمام مال ہلاک ہوجائے ،ایسے شخص کے لئے سوال کرناجائز ہے تاکہ اس کے حالات بہتر ہوجائیں اوراس کی محتاجی اورفاقہ زدگی دور ہوجائے۔‘‘ [صحیح مسلم ،الزکوۃ:۱۰۴۴]
ان احادیث کے پیش نظر قیامت خیززلزلہ سے متاثرین کے ساتھ تعاون کرناضروری ہے، خواہ زکوٰۃ سے ہویاعام صدقہ و خیرات سے یااپنی جیب خاص سے ،ہمیں اس نہج پرسوچناچاہیے کہ کل ہم بھی متاثرین میں شامل ہوسکتے ہیں اگرآج ہم نے کسی کے ساتھ تعاون کیا توکل ہمارا بھی تعاون ہوسکتا ہے یہ تعاون کرتے وقت دوچیزوں سے ہوشیار رہناہوگا:
1۔ آج کل حکومت نے تقریباً ہربینک میں متاثرین کی امداد کے لئے اکاؤنٹ کھول دئیے ہیں اس حکومت کی دینی اور مذہبی پالیسی کے پیش نظر ہمیں توقع نہیں ہے کہ مصیبت زردگان تک ہمارا تعاون پہنچ سکے گا ۔ویسے بھی بیرونی حکومتوں نے اس قدر بھر پور تعاون کااعلان کیاہے کہ اس سے نقصان کی تلافی کے ساتھ ساتھ مسمار شدہ مکانات کی تجدید نوبھی ہوسکتی ہے لیکن ہماراتجربہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ متاثرین کی اشک شوئی بہت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا متاثرین کی امداد کرنے والے حضرات اس پہلو سے چوکس رہیں ۔
2۔زلزلہ آنے کے بعد نام نہاد سماجی تنظیمیں بھی ملک بھر میں متحرک ہوچکی ہیں ۔جگہ جگہ انہوں نے اپنے کیمپ لگا لیے ہیں اورگھرگھر جاکرمتاثرین کے لئے تعاون جمع کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔متاثرین کی امداد کرنے والے حضرات نام بدل بدل کرسامنے آنے والی تنظیموں سے بھی ہوشیار رہیں ،ان کے ہاں بھی پیٹ پوچا زیادہ اورمصیبت زدگان کے لئے ہمدردی کے جذبات برائے نام ہوتے ہیں۔ متاثرین ہمارے ملک کے باسی ہیں ہمیں چاہیے کہ چند اہل دل مل کر کسی کو نمایندہ بنائیں اورخود متاثرین تک اپناتعاون پہنچانے کابندوبست کریں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب