سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) صدقۂ فطر کس سے ادا کیا جائے؟

  • 12145
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1067

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صدقۂ فطر کس چیز سے ادا کیاجائے ،کیا جنس کے بجائے اس کی قیمت دیناجائز ہے یا نہیں، نیزچاول وغیرہ بطور فطرانہ دیے جاسکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اجناس کوانسان بطورغذااستعمال کرتا ہے ان سے صدقۂ فطر ادا کیا جا سکتا ہے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں عموماً جو، کھجور، منقیٰ اورپنیر وغیرہ بطورخوراک استعمال ہوتے تھے، اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوانہی اجناس خوردنی سے صدقہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی خوراک سے ایک صاع بطورفطرانہ ادا کرتے تھے اوران دنوں ہماری خوراک جو،کھجور، منقیٰ اور پنیر ہوا کرتی تھی۔    [صحیح بخاری ،الزکوٰۃ :۱۵۱۰]

اس حدیث کے پیش نظر صدقۂ فطر ہراس چیز سے ادا کیاجاسکتا ہے جوسال کے پیشتر حصہ میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہو،اس روایت میں گندم کاذکر نہیں ہے، حالانکہ صدقۂ فطر میں گندم دینا بھی جائز ہے، البتہ گندم کاذکر ایک دوسری روایت میں آیا ہے۔چنانچہ حضرت اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گندم میں سے دو مد، یعنی نصف صاع بطور فطرانہ اد اکرتے تھے۔     [مسند امام احمد ،ص: ۳۵۰،ج ۶]

عرب میں دوسری اشیاء خوردنی کے مقابلہ میں گندم چونکہ مہنگی ہوتی تھی، اس لئے نصف صاع کا اعتبارکیاگیا ہے، بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اس کے باوجود گندم سے بھی ایک صاع دینے کے قائل اورفاعل تھے۔ہمارے ہاں گندم عام دستیاب ہے اس لئے گندم سے ایک صاع ہی ادا کرناچاہیے ۔اسی طرح چاول بھی بطورصدقہ فطر اد اکئے جاسکتے ہیں، بہرحال حالات وظروف کومدنظر رکھتے ہوئے فطرانہ ادا کیا جائے اوراس میں مساکین کی پسندیدگی کابھی خیال رکھا جائے۔ ہمارے ہاں عام طور پرمساکین کی ضرورت کے پیش نظر صدقۂ فطرمیں نقدی دی جاتی ہے، حالانکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیمت ادا کرناثابت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ کامقصد ’’مساکین کی خوراک ٹھہرایا‘‘ ہے۔     [سنن ابن ماجہ ،الزکوٰۃ:۱۸۳۷]

اس کاتقاضا بھی یہی ہے کہ فطرانہ میں اشیاء خوردنی ہی دی جائیں محدثین کرام میں سے کسی نے بھی اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ فطرانہ میں قیمت دیناجائز ہے بلکہ محدث ابن خزیمہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے اس باب میں صدقۂ فطر کے طورپرہرقسم کی اشیاء خوردنی ادا کرنے کابیان ہے، نیز اس شخص کے خلاف دلیل ہے جوصدقۂ فطرمیں پیسے اورنقدی اد اکرنے کو جائز خیال کرتا ہے۔     [صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ ]

البتہ کسی عذر کی بنا پرقیمت اد اکی جاسکتی ہے، مثلاً: ایک شخص روزانہ بازار سے آٹا خریدکر استعمال کرتا ہے تواس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ پہلے بازار سے غلہ خریدے اورپھراس سے صدقۂ فطراداکرے بلکہ وہ بازار کے نرخ کے مطابق اس کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔     [مرعاۃ المفاتیح، ص: ۱۰۰،ج ۴]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:213

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ