السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عشر، زمین کی کس قسم کی پیداوار سے کتنا ادا کرناپڑتا ہے، نیز پھلوں اورسبزیوں کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے،تفصیل سے لکھیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عشر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ فصل کاٹتے ہی اس سے اللہ کاحق اد اکردو۔‘‘ [۶/الانعام :۱۴۱]
نیز قرآن کریم میں ہے کہ ’’اے ایمان والو!جوکچھ تم نے کمایا ہے اورجوکچھ ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالاہے اس میں سے اچھی چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۶۷]
پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد صدقہ ہے جواللہ کے نام پر زمین کی پیداوار سے فقراء اورمساکین کودیاجائے، کیونکہ یہ فصل اللہ نے ہی اپنے فضل سے پیدا کی ہے۔ اس مقا م پراس ’’حق‘‘کی مقدار معین نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی تعیین خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ،چنانچہ آپ کافرمان ہے: ’’وہ زمین جسے بارش یاقدرتی چشمہ کاپانی سیراب کرتا ہویا کسی دریاکے کنارے ہونے کی وجہ سے خودبخودسیراب ہوجاتی ہو،اس قسم کی زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ بطور عشر لیاجائے گا اوروہ زمین جسے کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کرسیراب کیاجاتا ہواس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیاجائے گا ۔‘‘[صحیح بخاری، الزکوٰۃ :۱۴۸۳]
اس حدیث میں پیداوار دینے والی زمین کی حقیقت اوراس کی پیداوار پرمقدار عشر کوواضح طورپربیان کیاگیا ہے۔ شریعت نے مقدار عشرکے لئے زمین کی سیرابی، یعنی پیداوار لینے کے لئے پانی کو مدار قرار دیا۔ اگر کھیتی کو سیراب کرنے کے لئے پانی بسہولت دستیاب ہے اس پر کسی قسم کی محنت یامشقت نہیں اٹھاناپڑتی تو اس میں پیدا وار کا عشر، یعنی دسواں حصہ بطور زکوٰۃ نکالنا ہو گا اس کے برعکس اگر پانی حاصل کرنے کے لئے محنت و مشقت اٹھانا پڑتی ہے یااخراجات برداشت کرناپڑیں تواس میں نصف عشر،یعنی بیسواں حصہ ہے۔ ہمارے ہاں عام طورپرزمینوں کی آبپاشی دوطرح سے ہے ۔
(الف ) نہری پانی ،حکومت نے اس کے لئے ایک مستقل محکمہ ’’انہار‘‘قائم کر رکھا ہے۔ اس پرزمیندار کومحنت ومشقت کے علاوہ اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں ،آبیانہ وغیرہ ادا کرنا ہوتا ہے، اس کے باوجود نہری پانی فصلوں کے لئے کافی نہیں ہوتا ،اس کے لئے دوسرے ذرائع سے ضروریات کوپورا کیاجاتاہے۔
(ب) ٹیوب ویل :اول ٹیوب ویل لگانے کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے ۔جب اس کی تنصیب مکمل ہوجاتی ہے ،توپھر محکمہ واپڈا کاحکم وکرم شروع ہو جاتا ہے، اس کاکنکشن حاصل کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔اس کے بعد تیسرا مرحلہ جومسلسل جاری رہتاہے وہ ماہ بماہ کمرتوڑ اوراعصاب شکن بجلی کے بل کی ادائیگی ہے یا پھرگھنٹے کے حساب سے پانی خریدکرفصل کوسیراب کیاجاتا ہے، لہٰذازمین سے پیداوار لینے کے لئے ذاتی محنت ومشقت اورمالی اخراجات کے پیش نظر ہمارے ہاں پیداوار پر نصف، یعنی بیسواں حصہ بطورزکوٰۃ دیناہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اخراجات ہیں ان کاتعلق زمین کی سیرابی یاآبپاشی سے نہیں بلکہ وہ اخراجات زمیندار پیداوار بچانے یابڑھانے کے لئے کرتا ہے، مثلاً: کھاد یاسپرے وغیرہ یاپھر زمیندار اپنی محنت ومشقت سے بچنے اور اپنی سہولت کے پیش نظر کرتا ہے، مثلاً: بوتے وقت ٹریکٹر کا استعمال ،کٹائی کے وقت مزدور لگانا، فصل اٹھاتے وقت تھریشر وغیرہ کا استعمال۔
مذکورہ حدیث میں مقدار جنس کوبیان کیاگیا ہے، یعنی کتنے نصاب پرعشر واجب ہوتاہے؟ ا س کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکوٰۃ، یعنی عشر نہیں ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، الزکوٰۃ:۱۴۸۴]
عشر کے لئے یہ غلہ کانصاب ہے، اس سے کم پرعشر دیناضروری نہیں کیونکہ اس سے کم مقدار توکاشتکار یازمیندار کے گھرکاسالانہ خرچہ ہی تصور کیاجائے گا ۔ہاں، پانچ وسق یااس سے زیادہ عشرواجب ہوگا ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتاہے گویاجنس کانصاب 300صاع ہوتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع 2کلو 100گرام کاہوتا ہے اس حساب سے پانچ وسق کے 630 (چھ صدتیس) کلوگرام ہوتے ہیں جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک ایک صاع اڑھائی کلوکے مساوی ہوتا ہے، لہٰذا ان کے ہاں نصاب 630کلوگرام مقرر کیاجانا زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ شریعت نے مقدارعشر کے لئے زمین کی سیرابی کومدار بنایا ہے۔ اس کے علاوہ جوبھی اخراجات ہیں ان کاتعلق مقدارعشر سے نہیں ،لہٰذا جہاں زمین کی سیرابی کے لئے قدرتی وسائل ہوں وہاں پیداوار سے دسواں حصہ (عشر)لیاجائے گا اورجہاں زمین کوسیراب کرنے کے لئے قدرتی وسائل نہیں بلکہ محنت ومشقت اوراخراجات کرناپڑیں تووہاں بیسواں حصہ، یعنی نصف عشردینا ہوگا ،ہمارے ہاں عام طور پرپیداوار کابیسواں حصہ دیاجاتا ہے۔ پیدا وار سے دسواں حصہ دینے والی زمین بہت کم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عام طور پرمہاجرین تجارت اورانصار زراعت پیشہ تھے۔ وہ لوگ زمین کوخودکاشت کرتے تھے اور خود ہی کاٹتے اورفصل اٹھاتے تھے۔ زمین کی سیرابی کے لئے محنت ومشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے انہیں پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشرادا کرناضروری تھا ۔اس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے منہانہیں کئے جاتے تھے۔ اب عشر کے متعلق کچھ مزید وضاحتیں پیش خدمت ہیں:
(الف) زرعی زکوٰۃ کے لئے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اس وقت زکوٰۃ واجب ہو گی، جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: ’’فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کاحق ادا کرو۔‘‘ [۶/الانعام :۱۴۱]
(ب ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم ،جو،منقیٰ اورکھجور سے زکوٰۃ لی جاتی تھی ،مگرہمارے ہاں اوربھی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں، مثلاً: چاول، چنے، جوار، باجرہ اورمکئی وغیرہ ان سب اجناس پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔
(ج ) ایسی سبزیاں اورترکاریاں جوجلدی خراب نہیں ہوتیں، مثلاً: آلو، پیاز، لہسن، ادرک اور پیٹھا وغیرہ۔ ان پرزرعی زکوٰۃ، یعنی عشر واجب ہوگا۔ لیکن جوترکاریاں تازہ استعمال ہوتی ہیں اورجلدی خراب ہوجاتی ہیں، مثلاً: کدو، ٹینڈا، کریلے اورتوریاں وغیرہ ان پرزرعی زکوٰۃ نہیں بلکہ سال کے بعد ان کے منافع پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوتی ہے، یعنی اڑھائی فیصد یاچالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔
(د) پھلوں میں بھی زرعی زکوٰۃ ہے۔ بشرطیکہ انہیں دیر تک استعمال کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منقیٰ اور کھجور سے عشر ادا کیا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خشک پھل پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً: اخروٹ، بادام، خوبانی، مونگ پھلی وغیرہ اگر اس قسم کے پھل حدِ نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زرعی زکوۃ واجب ہو گی۔
(ھ) کپاس بھی زمینی پیداوار ہے اورہمارے ملک میں خاصی منفعت بخش فصل ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ادا کرنا ہو گا، یعنی بیس من سے ایک من بطورعشر ادا کیاجائے اگرکوئی کاشت کار تجارت پیشہ بھی ہے تواسے چاہیے کہ اگرکپاس کی پیداوار حدنصاب کوپہنچ جائے تواس سے پہلے عشر ادا کرے اورپھر اگراسے تجارت میں فروخت کردیتا ہے تواس کی رقم حدنصاب کوپہنچ جائے توتجارتی زکوٰۃ بھی ادا کرے، یعنی کھیتی کاحساب علیحدہ ہوگا اورتجاری مال کی زکوٰۃ کاحساب الگ ہوگا ۔تجارتی مال کی رقم، خواہ کہاں سے بھی آئے، اس سے زکوٰۃ ادا کرناضروری ہے۔ کپاس کاذکرحدیث میں بھی ہے، چنانچہ ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور صدقہ وغیرہ کی معافی کے لئے درخواست کی توآپ نے فرمایا: ’’اے قوم سبا سے تعلق رکھنے والے! صدقہ کی ادائیگی ضروری ہے۔‘‘ پھراس نے مزید وضاحت کی کہ ہم تو صرف کپاس کاشت کرتے ہیں اورسبا پرجب آفت آتی ہے تومارب مقام پرتھوڑی بہت کپاس کاشت ہوتی ہے ۔پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترجوڑے سالانہ وصول کرنے پر اس سے صلح کرلی۔ [ابوداؤد ،الخراج :۳۰۲۸]
مختصریہ ہے کہ کپاس سے بھی عشر دیناہوگا۔
(و) ہمارے بعض علاقوں میں گنابھی کاشت کیاجاتا ہے۔ اگر اسے ملوں کوفروخت کردیاجائے تواس پر تجارتی زکوٰۃ ہوگی اوراگر اسے بطورچارہ استعمال کرلیاجائے توقابل معافی ہے، اگراس کماد سے گڑ شکریاچینی بنائی جائے تواس سے عشر دیناہوگا بشرطیکہ حدنصاب کوپہنچ جائے۔
(ز) اگرکسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کوعاریۃً برائے کاشت دی ہے تواس صورت میں جس نے فصل کاٹی ہے وہی اس کا عشروغیرہ اداکریگا ۔مالک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں ہے کیونکہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ،اگرزمین کے مالک نے کسی دوسرے کوطے شدہ حصے پر کاشت کرنے کے لئے دی ہے تواس صورت میں دوموقف ہیں :
1۔ ہرایک کاحصہ اگرحدنصاب کوپہنچ جائے تواس سے عشر دیناہوگا اگرکسی کابھی حصہ نصاب تک نہیں پہنچتا توکسی پر عشرواجب نہیں، یعنی جس شخص کاحصہ حدنصاب کوپہنچ جائے گا اسے اپنے حصے سے عشردیناہوگا۔
2۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کایہی موقف ہے کہ اگر مجموعی پیداوار حدنصاب کوپہنچ جائے توہرایک اپنے حصے کے مطابق عشر دے گا یاعشرادا کرنے کے بعد دونوں طے شدہ حصوں کے مطابق پیداوار کوتقسیم کرلیں گے ۔
ہمارے نزدیک یہ دوسراموقف وزنی معلوم ہوتا ہے، نیز اس میں غرباء ومساکین کابھی فائدہ ہے۔ خیبر کی زمین بھی پیداوار کے لئے طے شدہ حصے کے عوض کاشت کی جاتی تھی چونکہ یہودی عشرادا کرنے کے پابند نہیں تھے اس کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو حصہ ملتا اگر وہ حدنصاب کو پہنچ جاتا تواس سے اللہ تعالیٰ کاحصہ الگ کردیتے تھے۔ اگرزمین کوٹھیکے پردے دیاجائے توزمیندار چونکہ زمین کامالک ہوتا ہے وہ ٹھیکے کی اس رقم کواپنی مجموعی آمدنی میں شامل کرکے زکوٰۃ ادا کرے گا ۔بشرطیکہ وہ نصاب کوپہنچ جائے اوراس کی ضروریات سے فاضل ہواور اس پرسال بھی گزرجائے ۔زمین ،ٹھیکے پرلینے والاکاشت کرنے میں خودمختار ہوتا ہے اورپیداوار کا مالک بھی وہی ہوتا ہے۔ وہ صاحب اختیارہونے کی حیثیت سے عشراد اکرے گا ۔ٹھیکے کی رقم اس سے منہانہیں کی جائے گی ،کاشت کار کومتعدد مالی اخراجات کی وجہ سے بیسواں حصہ دینے کی رعایت دی گئی ہے۔ اگراس رعایت کے باوجود ٹھیکہ کی رقم ،کھاد ،سپرے کے اخراجات ، کٹائی کے لئے مزدوری اورتھریشر وغیرہ کے اخراجات بھی منہاکردئیے جائیں توباقی کیابچے گا ۔جوعشر کے طورپر ادا کیاجائے گا ۔ لہٰذا ہمارارجحان یہ ہے کہ کاشتکار کسی قسم کے اخراجات منہا کئے بغیراپنی پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشرادا کرے گا، بشرطیکہ اس کی پیداوار پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ اگراس سے کم ہے توعشر نہیں، ہاں اگر چاہے تو فی سبیل اللہ دینے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب