سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167) غائبانہ نمازِ جنازہ کےمتعلق اشتہارات شائع کرنا

  • 12138
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 886

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں عام طورپر شہید کی غائبانہ نمازہ جنازہ کے متعلق اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں پھربڑی دھوم دھام سے نمازجنازہ اد اکی جاتی ہے، اور نماز سے پہلے کافی دیر تقاریر کاسلسلہ جاری رہتا ہے، کیا شرعی طورپر ایسا کیاجاسکتا ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہاں تین باتیں قابل غور ہیں ۔

1۔  غائبانہ نمازجنازہ ۔                2۔  شہید کی نماز جنازہ ۔              3۔  شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ۔

غائبانہ نماز جنازہ کے متعلق محدثین نے چند شرائط کے ساتھ صرف جواز کی حد تک اجازت دی ہے، چنانچہ امام ابن قیم رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ ہرغائبانہ میت کانمازجنازہ پڑھنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول نہ تھا آپ کے عہد مبارک میں بے شمار مسلمان مدینہ سے باہر فوت ہوئے، ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی، صرف حبشہ کے سربراہ نجاشی کا آپ نے غائبانہ جنازہ پڑھا ہے۔  [زادالمعاد، ص:۲۰۵، ج ۱]

تا ہم ہمارے نزدیک اس کے متعلق موقف ہے کہ ہر مرنے والے کاغائبانہ جنازہ پڑھنا غیر مشروع ہے، ہاں، جس کی علمی، ملی اورسیاسی خدمات ہوں، اس کا غائبانہ نمازجنازہ پڑھنے میں چنداں حرج نہیں ہے وہ بھی ضروری نہیں ہے ۔دوسری قابل غور بات شہید کے جنازہ سے متعلق ہے، شہید کاجنازہ بھی ضروری نہیں ہے ،کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کوان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا حکم دیااوران کی نمازجنازہ نہیں پڑھی۔     [صحیح بخاری ،الجنائز:۱۳۴۳]

 شہدائے بدر کے متعلق بھی نمازجنازہ کاکوئی ذکر احادیث میں منقول نہیں۔اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھی ہوتی توصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اسے ضرور بیان کرتے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء کی نماز جنازہ دوسرے مسلمانوں کی طرح واجب نہیں ہے صرف جواز کی حد تک اجازت ہے، جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، مثلاً صحیح بخاری، مغازی: ۴۰۴۲، ابوداؤد، جنائز: ۳۱۳۷ اور نسائی، جنائز: ۱۹۵۵ میں ہے۔

تیسری بات کہ شہید کاغائبانہ نمازجنازہ پڑھنا تواس کے متعلق خیرالقرون میں اس کی کوئی نظیرنہیں ملتی ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں حضرت عبداللہ بن رواحہ اورحضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہما  مدینہ سے باہر ایک جنگ میں شہید ہوئے ،بذریعہ وحی آپ کواطلاع دی گئی لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے آپ نے ان کی غائبانہ نمازجنازہ کااہتمام کیاہو،سوال میں چند ایک امتیازی علامتوں کے ساتھ شہید کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھنے کاذکر ہے ۔ بلا شبہ ہمارے ہاں بعض ناگزیر حالات کی بنا پر دھوم دھام سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کارواج چل نکلا ہے اوراس کے مندرجہ ذیل امور کی بجاآوری کوضروری خیال کیاجاتا ہے۔

1۔  شیر دل شہید کے غائبانہ جنازے کے لئے بڑے بڑے اشتہارات شائع کرکے درو دیوار پرلگائے جاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے اشتہارات انفرادی طور پرتقسیم کئے جاتے ہیں۔

2۔  مساجد اوردینی مراکز میں اس کے متعلق اعلانات کئے جاتے ہیں ۔

3۔  کسی قد آورشخصیت کوغائبانہ نمازجنازہ کی امامت کے لئے مدعو کیاجاتاہے ۔

4۔  علاقہ بھرسے لوگوں کوجمع کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعما ل کئے جاتے ہیں۔

5۔  خواتین کووہاں لے جانے کے لئے بسوں کاخصوصی اہتمام کیاجاتا ہے ۔

6۔  مزعومہ تحریک کوزندہ رکھنے کے لئے تقاریر کااہتما م کیاجاتا ہے جس کے لئے مقررین کودعوت دی جاتی ہے ۔

7۔  دھواں دار تقاریر سے خوب لوہاگرم کیاجاتا ہے، پھرشعبہ مالیات کومضبوط کرنے کے لئے خواتین وحضرات سے چندہ کی اپیل کی جاتی ہے ۔

8۔  آخرمیں پانچ منٹ، دس منٹ میں شہید کاغائبانہ نمازجنازہ پڑھ کرعوام الناس کوفارغ کردیاجاتا ہے ۔

اس انداز سے شہید کاغائبانہ نمازجنازہ پڑھنے کے متعلق خودتحریک جہاد برپا کرنے والے بعض حضرات بھی مطمئن نہیں ہیں اوراپنے عدم اطمینان کابرملا اظہار کرتے ہیں لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر تحریک کے ساتھ وابستہ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں بوقت ضرورت ان کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے جہاد کے احکام ومسائل کا انسائیکلو پیڈیا ’’الجہادالاسلامی‘‘ نامی کتاب جوتقریباً900صفحات پرمشتمل ہے۔ اس میں شہید کی غائبانہ نمازجنازہ کاعنوان سرے سے غائب ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کوخودبھی اس کے متعلق شرح صدرحاصل نہیں ۔بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ بالا انداز سے شہید کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھنامحل نظرہے ۔   [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:204

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ