السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تمسک بہ قرآن وعترت
روایات کتب شیعہ کی حیثیت استناد
ایک شیعہ بھائی کے چند سوال ہیں جو مع جواب درج ذیل ہیں:
(1 ) ایک حدیث میں ہے:«أنى تركت فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا كتاب الله وعترتي»(مشکوة )یعنی ’’کتاب اللہ اور میرے اہل بیت سے تمسک کئے رہو ہے تو گمراہ نہ ہو گے۔‘‘
(2) دوسری ایک روایت میں حضرت علی کے بارے میں ہے: «انا مدينة العلم وعلى بابها ۔» علاوہ ازیں اہل بیت پاک بےمثال ہیں کیونکہ آیت تطہیر صرف انہی کے حق میں اتری ہے۔ اہل بیت کےان فضائل کے ہوتے ہوئے آپ لوگ اہل بیت کی تفسیر، احایث فقہ کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ اور بخاری ،مسلم کی احادیث کو کیوں لیتے ہیں؟(سائل محمد بشیر غوری بنگلہ گوگیرہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ذکر کردہ حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اہل بیت سے محبت رکھی جائے، ان کی سیرت کو اختیار کیا اور ارشادات پر عمل کیا جائے تاہم اس میں یہ لحاظ رکھا جائے کہ وہ کتاب و سنت سے متصادم ہوں نہ ہوں جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے۔ قال السيد جمال الدين اذا لم يكن مخالفا للدين(مرقاة شرح مشكوة ص600ج 5) یعنی اہل بیت کے اقوال سے تمسک کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مخالف نہ ہوں۔قال ابن الملك : التمسك بالكتاب عمل بما فيه وهو الاتمار باوامر الله والانتهاء بهديهم وسيرتهم (مرقاة ايضا) یعنی تمسک بالکتاب یہ ہے کہ قرآن کے تمام اوامر پر عمل کیا جائے اور نواہی سے اجتناب کیا جائے اور اہل بیت کے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سیرت اور طریقہ کو اختیار کیا جائے۔" الحمد للہ اہل سنت والجماعتہ ان دونوں کو ختیار کیے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کے کسی بھی امر باتہی کو چیلنج کرنا ہمارے نزدیک کفر ہےاور اہل بیت کے ساتھ ادنیٰ گستاخی بھی گناہ کبیرہ جانتے ہیں ؏
البتہ شیعہ حضرات دونوں باتوں کے مخالف ہیں۔ قرآن مجید کو وہ قرآن ھی نہیں مانتے ( معاذاللہ) جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا تھا کہتے ہیں کہ ( معاذ اللہ) ہی محرف ھے۔ چنانچہ احتجاج طبرسی میں ہے: ولوسرحت لك كل ما اسقط وحرف وبذل مما يجرى هذا المجرى لطال وظهر ما حظره التقية اظهاره (ص 128مطبوعہ ایران)’’ اگر میں سب کچھ تفصیل سے بتائوں جو آیتیں قرآن سے خارج کر دی گئی ہیں یا جن میں تحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے تو بات طویل ھو جائے گی اور جس راز کے افشا کرنے سے تقیہ مانع ھے وہ ظاہر ھو جائے گا۔
عن هشام بن سالم عن ابى عبد الله عليه السلام قال ان القرآن الذى جاء به جبريل عليه السلام سبعة عشر الف آية- ( اصول كافى ص 671 باب النو ادر )
’’حضرت جعفر کہتے ہیں کہ جوقرآن حضرت جبرئیل جناب نبی کریمﷺ پر لائے تھے وہ سترہ ہزار آیات پر مشتمل تھا۔‘‘
جبکہ موجودہ قرآن 6666 آیات پر مشتمل ہے’’فصل الخطاب ص30 ‘‘میں ہے ’’شیعی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی روایات متواتر ہیں۔" اور تفسیر صافی کے مقدمہ میں شیعی مفسر جناب کاشی لکھتے ہیں کہ ’’ قرآن کچھ وہی ھے کچھ بدلا ہوا ہے اور کچھ حذف کر دیا گیا ہے۔‘‘ گویا اللہ تعالیٰ نے جو ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحافِظونَ﴾ کے ذریعے اس کی حفاظت کا اعلان فرمایا تھا، وہ غلط تھا یا وقت نے اسے غلط ثابت کر دیا۔نعوذ بالله من ذلك
یہی حال شیعوں کا اہل بیت کے ساتھ بھی ہے۔ گو ان کی محبت و عقیدت کا دم بھرتے بلکہ ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں،لیکن در حقیقت وہ قرآن کے ساتھ ساتھ ان کو بھی نہیں مانتے اور ان کی توہین کرتے رہتے ہیں جعسا کہ یہ حضرات ،حضرت زینب ،حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت زینب کو دختران رسولﷺ نہیں مانتے۔ اس سے زیادہ توہین اور ہتک عزت رسولﷺ اور کیا ہو سکتی ہے۔ ان حضرات کی کتابوں میں تو یہ تک لکھا ہے:ان عليا عليه السلام قال على منبر كوفة يايها الناس ستدعون الىٰ شىء فسبونى ( اصول كافى ص 484) یعنی ’’ حضرت علیؓ فرماتے ہیں لوگو تمہیں میری دشنام طرازی کی دعوت دی جائے گی ،پس تءم گالی گلوچ دے لینا۔‘‘ شاباش!
شیخ کشی نے بہ سند معتبر حضرت محمد باقر سے روایت کی ہے کہ’’ ایک روز حضرت حسن ؓ اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھے تھے ،ناگاہ ایک شیعی سوار آیا کہ اسے سفیان بن ابی یعلی کہتے تھے اس نے کہاالسلام عليك يا مذل المومنين ’’مومنوں کو ذلیل کرنے والے تجھے سلام۔‘‘ (جلال العیون ص 228 ) بلکہ حضرت حسینؓ کے قاتل بھی شیعہ ہی تھے’’پس بیس ہزارمرد عراقی نے امام حسین ؓ کی بیعت کی جنہوں نے بیعت کی تھی انہوں نے ہی شمشیر امام حسینؓ پر کھینچی اور ہنوز بیعت ہائے امام حسین ؓ ان کی گردنوں میں تھی کہ امام حسین ؓ کو شہید کیا۔(جلال العیون ص 279ج1 )
حضرت علی ؓ کا قاتل بھی شیعہ تھا۔ جلاءالعیون میں ہےکہ عبدالرحمٰن بن ملجم قاتل حضرت علیؓ بھی شیعہ تھا۔(ص199 ج ا)
’’پس جب ارادہ تزویج فاطمہؓ ہمراہ علیؓ ہوا، جناب فاطمہؓ سے پنہاں حضرت نے بیان کیا ،جناب فاطمہؓ نے کہا کہ میرا آپ کو اختیار ہے، لیکن زنان قریش کہتی ہیں کہ علیؓ بزرگ شکم اور بلند دست ہے اور بند ہائے استخوان پراگندہ ہیں،آگے سر کے بال نہیں آنکھیں بڑی اور ہمیشی خندہ دہاں اور مفلس ہیں۔(جلال العیون ص 130ج1 ) سوچنے کی بات یہ ہے کیا واقعی حضرت فاطمہؓ ایسی بازاری گفتگو کی خوگر تھیں حاشا حاشا کیا اس سے بڑھ کر بھی حضرت بتولؓ کی توہین ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ایسی نام نہاد محبت سے خدا کی پناہ
یہ ہے اپ کے دعوے کی حقیقت کہ ہم لوگ یعنی شیعہ ثقلین ( قرآن اور اہل بیت رسولﷺ) کو ماننے والے۔
رہا اہل بیت کی تفسیر ۔ احادیث اور فقہ پر اعتماد کرنے کا سوال تو گزارش ھے کہ اگر ان بزرگون کی تفسیر احادیث اور فقہ صحیح اسناد کی ساتھ ھم تک پہنچ گئی ہوتیں تو ہمارے لیئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اورکیا ہو سکتی تھی؟ مگر معاف کیا جائے اس گزارش کرنے پرکہ حضرات صحابہ ؓ سے بغض نے ’’ راویان اہل بیت‘‘ کو کچھ اس طرح گرمایا کہ انہوں نے فضائل اصحاب ثلاثہ اور مناقبت دیگر صحابہؓص کا انکار کرنے کے لیے قرآن پاک کو غیر مکمل محرف اور مبدل قرار دے دیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جیسا کہ ’’اصول کافی، فصل الخطاب‘‘۔ احتجاج طبرسی صافی سےہم چار حوالے پہلے تحریر کر چکے ہیں۔جب قرآن ہی آپ کے نزدیک غیر محفوظ ہے تو پھر اس کی تفسیر کے موجود ہونے کا دعویٰ کیسا؟
شیعہ کتب حدیث کو جب دیکھا جاتا ہے تو .... ان کتب کے اندر تناتضات اور تضادات کے علاوہ ان کے راویان حضرات بھی ماشاءاللہ تقریباً سب ہی مناکیر، مجاہیل،کذاب، وضاع ہی دیکھنے میں آتے ہیں جیسا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی بحوالہ کتب شیعہ ضعفاء اور مجاہیل شیعی راویوں کے ناموں کی کھیپ بیان فرماتے ہیں:
فهؤلاء كلهم مجاهيل مع جماعة أخرى لا تكاد تحصى وقد روى عنهم شيوخهم كعلي بن ابراهيم وابنه ابراهيم ومحمد بن يعقوب الكليني وابن بابويه وأبي جعفر الطوسي وشيخه أبي عبدالله الملقب بالمفيد في صحاحهم التي أوجب العمل بما فيها مجتهدوهم وزعموا انها توجب العلم القطعي، نص على ذلك المرتضى والطوسي والحلي.( تحفه اثناعشریه ص 223)
حاصل ترجمہ یہ کہ تمام راوی مع اپنے ساتھیوں کے جو بے شمار ہیں، سب کےسب مجہول ہیں، لیکن ابو جعفر طوسی اور مفید ایسے شیعی مصنفوں نے اپنی ان صحاح میں جن شیعہ مجتہدین کے نزدیک عمل کرنا واجب ہے کئی راویوں کی احادیث کو جمع کیا ہے جیسا کی مرتضیٰ اور طوسی وغیرہ نے تصریح کی ہے۔‘‘
دو روایتیں بطور نمونہ ملاحظہ فرما لی جائیں علامہ حسین قمی نو اور میں ایک حدیث لائے ہیں:
عن محمد بن سنان قال: كنت عند أبي جعفر الثاني عليه السلام فأجريت اختلاف الشيعة، فقال: يا محمد إن الله تبارك وتعالى لم يزل متفردا بوحدانيته ثم خلق محمدا وعليا وفاطمة،والحسن والحسین فمكثوا ألف دهر، فخلق جميع الاشياء، فأشهدهم خلقها وأجرى طاعتهم عليها وفوض أمورها إليهم، فهم يحلون ما يشاۆون .( تحفه اثناعشریه ص 338)
’’پہلے اللہ تعالیٰ واحد تھا، پھر حضرت محمد ﷺ علیؓ،فاطمہؓ،حسنؓ و حسینؓ کو پیدا فرمایا، پھر ایک ہزار زمانہ توقف کیا پھر ان کے سامنے دوسری چیزوں کو پیدا فرمایا اور ان لوگوں پر ان کی اطاعت فرض فرمائی اور مخلوق کے کام ان کے سپرد کر دیئے جو چاہیں ان پر حلال کریں اور جو چاہیں حرام کریں۔‘‘
یہ بات ہے کہ اس کوحدیث کہا جا سکتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اہل بیت کی طرف اس کو منسوب کرنا حد درجہ نادانی ہے،کیونکہ حلال و حرام کا اختیار تو از خود صاحب وحی رسول اللہﷺ کو حاصل نہیں ہے، چہ جائیکہ کسی امتی کو یہ اختیار سونپ دیا جائے۔ ﴿يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ﴾ (سورہ تحریم )میں اس قانون کو بیان فرمایا گیا ہے۔ کیا ایسی حدیثیں کبھی قابل اخذ و تمسک ہو سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔
ان عليا كان على ناقة من نوق الجنة وبيده لوآء الحمد وحوله شيعته . ( تحفه اثناعشریه ص 340)
’’سفر معراج میں حضرت علیؓ جنت کی ایک اونٹنی پر سوار تھے اور ان کے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا تھا اور ان کے شیعہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر تمام شیعوں کو معراج کی سعادت حاصل ہوئی تھی تو پھر حضرت محمدﷺ کی کیا خصوصیت ہوئی؟
ساتھ ہی فقہ اہل بیت کا بھی ایک نمونہ دیکھتے چلیں تاکہ خوب اندازہ ہو سکے۔
عن ابى عبد الله عليه السلام قال النظر الى عورة من كيس علم مثل نظر الى عورة الحمار : (فروع کافی جلد2)
’’امام صادق نے فرمایا کہ غیر مسلم مرد یا عورت کی شرم گاہ کی طرف دیکھنا ایسا ہے جیسا کہ گدھے کی شرم گاہ طرف دیکھ لیا۔‘‘
حالت حیض میں وطی دبر، منکوحہ و مملوکہ اور چھوکری عاریتی، وقف اور امانت عورت متعہ سب کے ساتھ جائز ہے۔( تحفه اثناعشریه ص 528باب مسائل نکاح)
(3) متعہ دوریہ جائز ہے۔ محقق ان کے کہتے ہیں کہ ہماری کتابوں سے ثابت ہے۔ لا یجوز الکارہ۔ صورت اس وجہ کی ہے کہ ایک گروہ ایک عورت سے متعہ کریں اور دوسرے کی باری ٹھرائیں اور ہر ایک اس سے جماع کرے۔( تحفه اثناعشریه ص 530)
سبحان اللہ کیسی پاکیزہ فقہ ہے؟ شیعی فقہ اس قسم کے "لطیفوں" سے بھری پڑی ہے۔حوالہ جات عندا لطلب پیش کر دیئے جاسکتے ہیں۔
رہا حضرت علیؓ کے اعلم ہونے حدیث انا مدينة العلم وعلى بابها سے استدلال ! تو جہاں تک حضرت علیؓ کی حلالت علمی کا تعلق ہے وہ مسلم ہے، لیکن اس حدیث سے دوسرے صحابہ کرامؓ کے علم پر بلڈوزر پھیرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟علاوہ ازیں یہ روایت بجائے خود کسی کام کی نہیں، اتنی سخت ضعیف ہے کہ حافظ ابن الجوزی وغیرہ نے اس کو موضوع لکھا ہے۔منہاج السنہ ص 138ج4)
امام بخاری کہتے ہیں: انه منكر وليس له وجه صحيح (یہ کسی طریقے سے بھی صحیح ثابت نہیں )یحییٰ بن معین کہتی ہیں: لااصل له (اس کی کوئی اصل نہیں ہے) ابن دقیق العید کہتے ہیں هذا الحديث لم يثبتوه (اہل حدیث کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں) امام نووی،امام ذہبی اور شمس الدین جزری نے بھی اس کے موضوع ہونے کی صراحت کی ہے( تحفه اثناعشریه ص 212باب امامت )حضرت امام ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے(منہاج السنہ) ’’ قال البخارى انه منكر ، قال الترمذى انه منكر غريب ، وقال الشيخ محى الدين النووى والحافظ شمس الدين الذهبى وشمس الدين الجزرى انه موضوع ذكره ابن الجوزى فى الموضات . ‘‘ ( تحفه اثناعشریه ص 431و 432)بلکہ شاہ عبدالعزیز نے اس کے برعکس یہ ایک صحیح حدیث حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اعلم ہونے کے بارے میں نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
ماصب الله شيئا فى صدرى الا وقد صببته فى صدر ابى بكر رضى الله عنه . ( تحفه اثناعشریه ص 332)
’’اللہ تعالیٰ نے میرے سینے میں جو چیز بھی ڈالی ، وہ میں نے ابوبکرؓ کے سینے ڈال دی۔‘‘
علاوہ ازیں یہ بات ہے کہ نبی اپنی امت میں سب سے بڑا عالم ہوتا ہےاس لحاظ سے حضرت عمر اعلم امت ہیں نہ کہ حضرت علیؓ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ لوكان بعدى نبى لكان عمر .اگر میرے بعد نبوت جاری ہوتی تو عمر نبی ہوتے۔ تاہم اگر اس حدیث کو کسی درجے میں قابل استدلال ٹھہرا بھی لیا جائے تو اسے اس معنی میں تو لیا جا سکتا ہے کہ حضرت علیؓ بھی علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں۔ اس کے یہ معنی لینا کہ صرف وہی واحد دروازہ ہیں، یکسر غلط اور واقعات کے سراسر خلاف ہے۔اس طرح تو تمام صحابہ کرامؓ سے مروی احکام و مسائل پر خط نسخ پر جاتا ہے جو صحیح سندوں سے ثابت ہیں جبکہ زیر بحث روایت سند کے لحاظ سے قابل التفات ہی نہیں۔
آیت تطہیر میں اہل البیت سے مراد صرف آنحضرتﷺ ،حضرت علیؓ ،حضرت فاطمہؓ ،اور حسنؓ و حسینؓ کو مراد لینا بالکل غلط ھے۔ کیونکہ آیت تطہیر کا سیاق و سباق صاف بتلا رہا ہے کہ یہ آیت ازواج مطہراتؓ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے یہ الفاظ ان كنتن ، تردن ، فتعالين امتعكن ، اسرحكن ، يأت منكن ، يقنت منكم ، يا نساء النبى لستن ، ان اتقينن .فلاتخضعن ، قرن ، ولاتبرجن واطعن - یہ تیرہ خطابات ازواج مطہراتؓ کو ہیں، جیسا کہ يا نساء النبى اورقل لازواجك روز روشن اور عیاں ہے اور پھر اس کے بعد ان احکامات کی وجہ بیان فرما ﴿دیلِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا﴾’’(پیغمبر)گھر والو اللہ تعالیٰ اور کچھ نہیں یہ چاہتا ہے تم سے (ہر طرح کی) گندگی و ناپاکی دور کر دے۔ یہاں ازواج مطہرات کو اہل بیت سے تعبیر فرمایا اور پھر اس کے بعد والی آیت میں کسی نئے خطاب کے ان کو یوں ارشاد فرمایا﴿ وَاذكُرنَ ما يُتلىٰ في بُيوتِكُنَّ﴾۔
اہل بیت سے بیویوں کو خارج کرنا محاورے کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ عربی میں بیوی کو اھل بیت اور فارسی میں اہل خانہ اور اردو میں گھر والے کہا جاتا ہے۔
هم نساء النبى ﷺ لانهن فى بيته وهو رواية سعيد بن مسيب عن ابن عباس وهو قول عكرمة ومقاتل . (تفسير خازن ص213ج5)
’’اہل بیت سے مراد نبی کی بیویاں ہیں کیونکہ وہی آپﷺ کے اہل خانہ ہیں۔‘‘
یہی سعید بن مسیب ؓ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہےعکرمہ اور مقاتل کا بھی یہی قول ہے۔
والظاهر ان المراد به بيت الطين والخشب لابيت القرابة والنسب . (تفسير روح المعانى ص 13ج22)
’’ظاہر ہے کہ اس سے مٹی اور لکڑیوں والا گھر مراد ہےقرابت اور نسب والا گھر نہیں۔‘‘
اس کی تائیدقرآن پاک کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جو شیعہ سنی کتب خصوصا تفسیر صافی کے مطابق حضرت سارہؓ کے تعجب کا جواب میں اتری ہے:
﴿قالوا أَتَعجَبينَ مِن أَمرِ اللَّـهِ ۖ رَحمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكاتُهُ عَلَيكُم أَهلَ البَيتِ ۚ إِنَّهُ حَميدٌ مَجيدٌ﴿٧٣﴾... سورة هود
’’فرشتے کہنے لگے: کیا تو اللہ کی قدرت پر تعجب کرتی ہے؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور برکت ہے۔‘‘
اور مسلم شریف میں یہ صراحت بھی موجود ہے۔
«فقال له حصين ومن اهل بيته يا زيد ؟اليس نساءه من اهل بيته.» (مسلم شريف ص 279ج 2)
یعنی ازواج مطہرات اہل بیت ہیں۔
جن روایات میں ازواج النبی کے اہل بیت نہ ہونے کا شبہ ہوتا ہے ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ ازواج مطہرات پر صدقہ حلال ہےاور بس۔ علاوہ ازیں حضرت عباسؓ اور ان کی اولاد کےلئے لفظ اہل بیتی حدیث میں موجود ہے۔
«اشتمل عليهم بملائه ثم قال رب هذا عمى و صنوابى وهولاء اهل بيتى» ( بروايت ابى اسيد ساعدى – بيهقى ، ابن ماجه از تحفه اثنا عشر ص410)
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ ، فاطمہؓ ،حسنؓ ،حسینؓ کو بالتبع اہل بیت میں شامل کیا ہے کہ اصالتاً ورنہ تحصیل حاصل لازم آئے گی اور آنحضرتﷺ جیسی ذات والا صفات سے ایسا کلام ممکن نہیں۔ پھر اگر تطہیر سے حضرت علیؓ اور ین کے خاندان کی’’ عصمت ‘‘ ثابت کرنے کا شوق ہے تو چشم ما روشن دل ما شادضرور کی جائے مگر ان کی ’’عصمت‘‘ کے ساتھ ساتھ اصحاب ثلاثہؓ کی عصمت پر ایمان لانا ہو گا ۔کیونکہ اس آیت سے زیادہ مفصل آیت ان قدسیوں کے حق میں نازل ہو چکی ہے پڑھیے اور ایمان تازہ کیجئے۔
سوال دوم:۔ بخاری ،مسلم اور ترمذی میں الفاظ ہیں:
لايزال هذا الدين قائما عزيزا حتى يكون فيهم اثنا عشر خليفة الى يوم القيامة .
اس حدیث سے ہمارے بارہ امام ہی مراد ہیں کیونکہ آپ لوگ بارہ خلفاء کی تعداد میں یزید کو بھی شامل کر لیتے ہیں جو کہ خلیفہ نہیں اور معاویہ بھی خلیفہ نہیں کیونکہ آپ کی کتابوں میں ہےالخلافة بعدى ثلاثون عاما ثم يصير ملكا عضوضا یہ حدیث اوپر کی حدیث کے منافی ہےاس لیئے آپ جن خلفاء کو پہلی حدیث کا مصداق بناتے ہیں۔ ان کی مدتیں تیس سال سے زائد ہے۔
جواب:۔ پہلی حدیث مین نقل کردہ الفاظ باوجود تلاش کثیر مجھے اس وقت تک نہیں مل سکے۔ تاہم اس سے ملتے جلتے الفاظ موجود ہیں:
1........عن جابر بن سمرة سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم قال يقول لا يزال الدين قائما حتى يكون عليكم اثنا عشر خليفة كلهم تجتمع عليه الامة – ( سنن ابى داؤد ص588)
2....... لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة(صحيح مسلم ص119)
3.......يكون من بعدىاثنا عشر أميرا(جامع ترمذى)
ان روایات کا مفاد یہ ہے کہ قیامت تک 12خلفاء اور امراء ہوں گے، یعنی صاحب اقتدار اور صاحب امر ہوں گے جیسے کہ’’ لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة ‘‘ کی الفاظ سے واضح ہے اور شیعہ اور سنی دونوں کے مطابق خلیفہ اور حاکم میں یہ اوصاف ہونے ضروری ہیں :
(1)مومن خالص اور نیک سیرت ہونا۔ (2) دین کی حفاظت اور صیانت کرنا۔(3) امن قائم کرنا۔ (4) اقامت نماز۔(5) زکوٰۃ اور بیت المال کا انتظام کرنا۔(6) امر بل لمعروف
(7) نہی عنالمنکر (8) جہاد جاری رکھنا (9) ہادی ہونا
(10) صبر اور عزیمت کا حامل ہونا۔ چنانچہ پہلے تین اوصاف کا وَعَدَ اللَّـهُ الَّذينَ آمَنوا والی آیت (سورہ نورپ 18) میں ذکر ہےاور 4 سے لے کر 7 تک الَّذينَ إِن مَكَّنّاهُم فِي الأَرضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عاقِبَةُ الأُمورِ کی آیت میں بیان ہے اور وصف نمبر8 ابعَث لَنا مَلِكًا نُقاتِل في سَبيلِ اللَّـهِ سورہ بقرہ آیت 24 میں مذکور ہے اور وصف 10،9 وَجَعَلنا مِنهُم أَئِمَّةً يَهدونَ بِأَمرِنا لَمّا صَبَروا ۖ وَكانوا بِآياتِنا يوقِنونَ (سورہ سجدہ :24) میں موجود ہے۔ ان اوصاف اور شروط کے علاوہ اور بھی کافی شروط ہیں جن کی تفصیل بڑی کتابوں میں آگئی ہے۔ خود حجرت علیؓ نہج البلاغۃ کے خطبہ 40 میں فرماتے ہیں:
إنه لا بد للناس من أمير بر أو فاجر يعمل في إمرته المؤمن.ويستمتع فيها الكافر. ويبلغ الله فيها الأجل. ويجمع به الفئ، ويقاتل به العدو. وتأمن به السبل.ويؤخذ به للضعيف من القوي حتى يستريح به بر ويستراح من فاجر (نهجة البلاغة ص)
یعنی لوگوں کےلیے اچھے یا برے امیر کا ہونا لازم ہے تاکہ اس کے دور حکومت میں مومن اطمینان سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے اور کافر بھی فائدہ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو فتنہ فساد سے محفوظ رکھے، ان کی طبعی عمروں تک پہنچائے۔ خراج اور واجبات وصول کیے جائیں اور جہاد کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور راستے پر امن ہوں اور طاقت والے سے ضعیف کا حق واگزار کیا جائے تاکہ نیکو کار آرام حاصل کر ے اور بدکار سے نجات حاصل ہو۔‘‘
ان تصریحات کے بعد اس ازراہ نوازش شیعہ حضرات کےپسندیدہ اور تجویز کردہ ائمہ کرام میں سے کسی اسے ایک امام کا نام بتایا جائے جو تجتمع عليه الامةاور حضرت علیؓ کی بیان کردہ مذکورہ بالا شروط و اوصاف کا حامل گزرا ہو بلکہ شیعہ ذاکرین حضرت علی ؓ کا نام نامی اور اسم گرامی بھی پیش نہیں کر سکتے۔ گو ہمارے نزدیک آپ برحق خلیفہ و راشد ہ ہیں۔ ’’هاتوا بُرهانَكُم إِن كُنتُم صادِقينَ .‘‘
اس سلسلے میں اہل علم کے دو مسلمہ قائدے ذہن میں رکھے جائیں۔ ’’الشىء خلا عن مقصوده لغا جو چیز اپنے مقصود سے خالی ہوتی ہے لغو ہوتی ہے۔ الشىء اذا ثبت ثبت بلوازمه ہر چیز جب ثابت ہوتی ہے تو وہ اپنے تمام لوازمات کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔
بنا بریں سوائے حضرت علیؓ اور حضرت حسن ؓ کے اثنا عشری حضرات کے بارہ اماموں کے دور اقتدار کی پوری حکومتی تفصیلات....یعنی طرز حکومت ، فتوحات ، اصلاحات وغیرہ لوازمات حکومت کے ساتھ بتایا جائے کہ ان خلفاء کے زمانوں میں اقامت صلوٰۃ، وصولی زکوٰۃ، انفاذ حدود، قصاص، احتساب، جنایات، جہاد اور ایسے دوسرے اہم مسائل پر مکمل عمل درآمد ہوتا رہا یا نہیں۔
مجوائے حدیث كلهم تجتمع عليه الامة – ( سنن ابى داؤد ص588)اور بارہ خلفاء یہ ہیں
(1) حضرت ابوبکر صدیقؓ(2) حضرت عمر فاروقؓ
(3)حضرت عثمان غنیؓ(4) حضرت علیؓ
(5) حضرت معاویہؓ(6) یزید بن معاویہؓ
(7) عبدالمالک بن مروان (8) ولید بن عبدالملک
(9) سلیمان بن عند الملک(10) حضرت عمر بن عبدالعزیز
(11) یزید بن عبدالملک(12) ہشام بن عبدالمالک۔
تاریخ شاہد ہے کہ یہ بارہ خلفاء اپنے اپنے دور خلافت میں پوری اسلامی دنیا کے واحد خلیفہ اور بلا شرکت غیرے امیر المئومنین تھے۔
اور یزید بن ولید کے قتل کے بعد آج تک کوئی بھی ان جیسا خلیفہ یا حکمران نہیں گزرا جس کا اقتدار پوری اسلامی دنیا کو محیط ہو۔۔۔عربی۔۔۔۔۔
رہا یہ خیال کہ حدیث اثناء عشر امیر ا سے مراد شیعہ حضرات کے بارہ امام مراد ہیں تو یہ ہرگز درست نہیں، چنانچہ امام ابن کثیر آیت وبعثنا منهم اثنى عشر نقيبا کے ذیل فرماتے ہیں۔ وليس المراد بهولاء الخلفاء الاثنى عشر الائمة الذين يعتقد فيهم الاثنا عشرية من الروافض لجهلهم وقلة عقلهم ( تفسير ابن كثير ص104ج3) کہ " ان بارہ خلفاء سے مراد وہ بارہ امام نہیں جن کا اپنی بے علمی اور کم عقلی کی وجہ سے شیعہ حضرات اعتقاد رکھتے ہیں۔
سوال نمبر 3:۔ باغ فدک سے محرومی پر حضرت فاطمۃالزہراء تا دم مرگ ناراض رہیں۔ فغضبت حتى توفيت (بخاری)فاطمة بضمة منى من اغضبها اغضبنى(بخارى) چنانچہ صغریٰ کبریٰ سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضی بھی ثابت ہوتی ہے ایسے اصحاب ثلاثہ بہشتی اور مغفور کیوں کر قرار پائے؟یا للعجب ، حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ شیخین کے حق میں کہتے تھے، كاذبا خائنا خاورا - جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے خود اعتراف بھی کر لیا تھا(صحیح بخاری) لہٰذا آپ کے پاس کوئی صحیح جواب ہو تو تحریر کریں۔
جواب:۔ اولاً یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی ناراضی والی حدیث تو حضرت علی ؓ کے بارے میں ہے۔ فاطمة بضمة منى فمن اغضبها فقداغضبنى ص532 بخاری)پھر آپ کے درج شدہ الفاظ صحیح نہیں ہیں آپ نے فغضبت حتى توفيت كو فمن اغضبها فقداغضبنى کے ساتھ ملا کر غضب کر دیا۔ آخری الفاظ تو حضرت علیؓ کے متعلق ہیںٌ پھر اس سے صغریٰ کبریٰ نکالتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو( معاذاللہ) اس کا مصداق قرار دیا ہے جو کہ سراسر ظلم ہےثانیاً بخاری شریف میں فغضبت حتى توفيت کے ساتھ دوسرے الفاظ بھی ہیں جو یہ ہیں۔
عن عائشة فقال لهما أبو بكر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: لا نورث، ما تركناه صدقة، إنما يأكل آل محمد من هذا المال.قال أبو بكر: والله لا أدع أمراً رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصنعه فيه إلاّ صنعته.قال: فهجرته فاطمةعليها السلام فلم تكلّمه حتى ماتت. (بخارى شريف ص995، 996)
اس روایت میں حضرت ابوبکرؓ کی معذرت اور اس کی دلیل جس کے بعد حضرت فاطمہ کا دوبارہ مطالبہ نہ کرنا صاف طور پر ذکر ہے اور فہجرت کا معنی یہ ہے کہ پھر جناب فاطمہؓ نے جناب ابوبکرؓ سے فدک کے معاملے پر ملاقات نہیں کی اور پھر چھ ماہ کے بعد اپنے ابا جی ﷺ کو جا ملیں اور بخاری کی دوسری حدیث میں وجدت کا لفظ بھی آیا ہے ۔ جس کا معنی ندمت اور حزنت ہے اس لیے اب معنی یوں ہو گا کہ حضرت صدیقؓ سے آپ نے جب معقول جواب سنا تو اپنے دعوے پر نادم ہوئیں اور غضبت کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے آپ پر غصہ آیا ہو۔
جواب2:۔ اغضاب اور غضب میں نمایاں فرق ہے۔ اغضاب کا معنی بلاوجہ ناراض کرنا ہوتا ہے لیکن حضرت ابونکر صدیقؓ نے تو حدیث’’ لا نورث، ما تركناه صدقة ‘‘ کی وجہ سے مجبوری کا اظہار فرما رہے ہیں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ راست فیصلہ ومااتاكم الرسول فخذوه کے عین مطابق تھا۔
بجرم عشق تو میکشند و غوغائیت
تونیز سربام آکہ خوش تماشہ الیت
حضرت فاطمہ کی یہ ناراضگی اور رنجیدگی محض غلط فہمی کی بناء پر تھی اور اہل اللہ کی ایسی رنجیدگی جس کی بنیاد غلط فہمی پر ہو اس کا کوئی نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوتا۔ ورنہ حضرت ہارونؑ پر حضرت موسیٰؑ ناراض ہو گئے تھے، تو کیا حضرت ہارونؑ مغضوب علیہ قرار پائیں گے؟ ہرگز ہرگز نہیں۔
جواب 3:حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی صلح ہو گئی تھی جیسا کہ بہیقی نے نقل کیا ہے۔
روى البيهقي من طريق الشعبي أن أبا بكر عاد فاطمة فقال لها علي هذا أبو بكر يستأذن عليك قالت أتحب أن آذن له قال نعم فأذنت له فدخل عليها فترضاها حتى رضيت(حاشیہ بخاری شریف ص532ص1)
’’حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت فاطمہؓ کو راضی کر لیا اور وہ راضی ہو گئیں۔‘‘
علاوہ ازیں حضرت ابوبکر ؓ نے بقول شیعہ مصنف کے فدک بھی حضرت فاطمہ ؓ کو دے دیا۔( ملاحظہ ہو: اصول کافی ص 355 ) اور شیخ ابن مطہر جلی نے بھی منہاج الکرامہ میں اعتراف کیا ہے:
لما وعظت فاطمة ابابكر فى فدك – كتب لها كتابا وروها عليها اور حجاج السالکین میں ہے:
فقالت : والله تفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد فرضيت بذالك وأخذت العهد عليه . (تحفه اثنا عشريه فارسى ص279)
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حجرت فاطمہؓ کو فدک کی تحریر لکھ دی تھی۔(جلاء العيون اردو ص 151)
جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اس کے برعکس من اغضبها فقداغضبنى حضرت علیؓ کے حق میں وارد ہیں۔ جیسا کہ خود شیعہ لٹریچر میں موجود ہے۔ جلاءالعیون ص137 اور ص63،62مترجم اردو کو ملاحظہ کر لیا جائے۔حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے ابو جہل کی بیٹی(جمیلہؓ) سے نکاح کرنا چاہا۔ جناب فاطمہؓ ناراض ہو کر میکے چلی آئیں، حجرت نبیﷺ نے جناب امیر کو کہا کہ جاٴو ابوبکرؓ اور عمر ؓ کو بلا لاوٴ، پس جناب امیر گئے۔ ابوبکر و عمرؓ کو بلا لائے، جب نزدیک رسول خدا ہوئےتب آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یاعلی! تم نہیں جانتے کہ فاطمہ میرے پارہ تن ہے اور میں فاطمہؓ سے جس نے اسے ایذاء دیا اس نے مجھے ایذء دیا الخ۔ اور بالکل یہی واقعہ ہماری کتب احادیث میں بھی موجود ہے چنانچہ ترمذی شریف میں ہے۔
عن عبد الله بن الزبير ، أن علياًً ذكر إبنة أبي جهل ، فبلغ النبي ، فقال إنها فاطمة بضعة مني ، يؤذيني ما آذاها ، وينصبني ما أنصبها (ص549ج2)
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ھے کہ حضرت علیؓ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو جب آنحضرتﷺ کو اطلاع پہنچی تو فرمایا کہ فاطمہؓ میرا گوشہ جگر ہے، جو چیز فاطمہؓ کو تکلیف دہ ہے وہ مجھے بھی تکلیف دہ ہے، جو چیز اس کیلیے بوجھ کا سبب ہے وہ میرے لیے بھی ہے۔(مسلم شريف ص290ج2)
اسی طرح شیعہ اصول کے مطابق تو صغریٰ کبریٰ جوڑ کر حضرت علیؓ کے حق میں بھی وہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے جو نتیجہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں نکالنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔فرمائیے کیا آپ کے اصول کے مطابق حضرت علیؓ مغضوب علیہ ہو گئے۔ یا للعجب۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔بحمدللہ ہمارے نزدیک لاریب حضرت علیؓ اپنے پیشروٴں کی طرح جنتی ہیں چوتھے درجہ اور چوتھے خلیفہ برحق تھے۔
خلفاء ثلاثہؓ کے جنتی ہونے پر دلائل یہ ہیں، چند آیات ملاحظہ ہوں:
﴿الَّذينَ ءامَنوا وَهاجَروا وَجـهَدوا فى سَبيلِ اللَّهِ بِأَمولِهِم وَأَنفُسِهِم أَعظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ وَأُولـئِكَ هُمُ الفائِزونَ ﴿٢٠﴾يُبَشِّرُهُم رَبُّهُم بِرَحمَةٍ مِنهُ وَرِضونٍ وَجَنّـتٍ لَهُم فيها نَعيمٌ مُقيمٌ ﴿٢١﴾... سورة التوبة
’’جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور جہاد کیااللہ کی راہ میں مالوں کے ساتھ اور جانوں کے ساتھ، یہی لوگ اللہ کے ہاں درجے میں بڑے ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ ان کا رب ان کو اپنی رحمت رضامندی اور جنت کی نوید سناتا ہے اور ان کے لیے اس جنت میں دائمی نعمتیں ہیں۔‘‘
﴿ إِنَّ اللَّهَ اشتَرى مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَمولَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ...﴿١١١﴾... سورة التوبة
’’اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کی جانوں اور مالوں کو اپنی جنت کے عوض خرید لیا ہے۔‘‘
﴿أُولـئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمـنَ وَأَيَّدَهُم بِروحٍ مِنهُ وَيُدخِلُهُم جَنّـتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـرُ خـلِدينَ فيها رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ أُولـئِكَ حِزبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٢٢﴾... سورة المجادلة
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے جن کے دلوں کی تختیوں میں ایمان کندہ کر دیا ھے اور ان کی غائب سے تائید فرمائی ھے اور انہیں ایسی جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے نہریں چلتی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ پر خوش ہو گئے یہی اللہ کی جماعت ہے اور خبردار اللہ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے۔‘‘
﴿وَالسّـبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهـرُ خـلِدينَ فيها أَبَدًا ذلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٠٠﴾... سورة التوبة
﴿لـٰكِنِ الرَّسولُ وَالَّذينَ آمَنوا مَعَهُ جاهَدوا بِأَموالِهِم وَأَنفُسِهِم ۚ وَأُولـٰئِكَ لَهُمُ الخَيراتُ ۖ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ﴿٨٨﴾... سورة التوبة
اور بھی ایسی بے شمار آیات قرآنیہ ہیں جن میں ان قدسیوں کے محامد و محاسن اور مناقب و فضائل کے تذکرے موجود ہیں۔ بلکہ خود شیعہ کی کتابیں بھی خلفاء ثلاثہ کے فضائل سے بھری پڑی ہیں چند حوالے نگارش کیے دیتا ہوںفروع کافی ص146ج3۔ تفسیر حسن عسکری ص231 تفسیر آیت غار تفسیر قمی ص 157 تفسیر آیت غار۔ کشف الغمہ 220 مطبوعہ ایران احتجاج طبرسی۔ مجمع البیان28 آية الذى بالصدق وغيره -
آخر میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ شیخین کو کاذب،آثم، خائن اور غادر سمجھتے تھےاور حضرت عمرؓ نے اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔‘‘
اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بھی کم علمی کی دلیل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اعتراف نہیں کیا بلکہ حضرت علی ؓ اور حضرت عباسؓ کو بطور تنبیہ ایسا فرما رہے ہیں کہ جو فیصلہ حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل ماتركنا صدقة صادر فرمایا اور میں نے اسی کو بحال رکھا، کیا تم لوگ مجھے اور حضرت ابوبکرؓ کو تعمیل ارشاد نبوی ﷺمیں کاذب، آثم ، غادر اور خائن سمجھتے ہو حالانکہ خدا جانتا ہے کہ میں اپنے موقف میں صادق ، بار، راشد اور متبع حق ہوں اصل الفاظ یہ ہیں۔ والله يعلم انى الصادق بار راشدتابع للحق ( صحيح مسلم ص91ج2)۔ یہ تو روزمرہ کا محاورہ ہے کہ جب کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں دھر لیا جاتا ہے تو وہ بطور استفہام اور استعجاب کے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔جیسے کسی کو چوری کا الزام دیا جائے تو وہ کہے گا کہ کیا تم مجھے چور سمجھتے ہو؟ اس کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اعتراف جرم کر رھا ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں تو میرے متعلق تمہیں اسکا شبہ کیوں گزرتا ہے؟فاعهم ولا تكن من المعائدين ، جناب والا اسی مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کو ٹھوس جواب دے کر مطمئن کر دیا تو حضرت علی ؓ نے تمام رنجش اور خلش بھلا کر بیعت کر لی تھی اصل الفاظ یہ ہیں۔
ثم قام على فعظم من حق ابى بكر وذكر فضيلته وسابقته ثم مضى الى ابى بكر فبايعه . (صحيح مسلم ص92ج2)
’’کیا حضرت علیؓ نے کاذب ،آثم اور غادر خائن کی بیعت کی تھی؟ جب وہ مل بیٹھے تھےتو آپ لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ علاوہ ازیں ۔ مسلم شریف ج2 ص90 پر یہی الفاظ حضرت عباسؓ سے بھی مذکور ہیں جن کا حدف حضرت علی ؓ ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں حضرت عباسؓ و علیؓ دونوں پیش ہوتے ہیں۔ حضرت عباس ؓ ان القابات کے ساتھ حضرت علیؓ کے خلاف دعویٰ دائر کرتے ہیں
فقال عباس ياامير المومنين !اقض بينى وبين هذا الكاذب الاثم الغادر الخائن . (مسلم ص90ج2بروايت مالك بن انس )
اب حضرت علیؓ کی طرف سے جو جواب ہو گا ہماری طرف سے حضرت فاروقؓ کے حض میں بھی قبول فرما لیا جائے۔ هذا آخر ما اردنا فى هذه الساعة وان تعودوا تعد ان شاء الله -
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب