السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لڑکا بھی مسلمان ہے اور لڑکی بھی مسلمان ہے ۔ ان دونوں کے اہل خانہ بھی مسلمان ہیں، لیکن لڑکی کا والد قادیانی ہے ، لڑکا اور لڑکی کا رشتہ طے پایا ہے ۔ لیکن لڑکی کاوالد جو قادیانی ہے اس نے شرط یہ لگائی ہے کہ نکاح بھی ہمارا آدمی ربوہ سے آ کر پڑھائے گا اور ہمارا ایک فارم ہے وہ بھی لڑکے نے پر کرنا ہو گا، لیکن لڑکا اور اس کے والدین کہتے ہیں کہ وقتی طورپر فارم بھی پر کر لیتے ہیں اور نکاح بھی کر لیتے ہیں لیکن گھر واپس آ کر شریعت محمدی ﷺ کے مطابق دوبارہ نکاح کر لیں گے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ مسلمان لڑکی ایک قادیانی کے نکاح میں چلی جائے گی ۔ کیا لڑکے کےلیے ایسا کرنا جائز ہے ؟(سائل حافظ نیک عالم ، کھاریاں ضلع گجرات )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال لڑکی اور لڑکا مسلمان ہیں اور قادنیوں کو کافر سمجھتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت پر ایمان محکم رکھتے ہیں یعنی مرزائیوں کی تینوں پارٹیوں ( قادیانی ، لاہوری اور ربوی) کے کافر ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اور پھر دوبارہ نکاح بھی اسلامی طریقے پر پڑھ لیں گے ، یعنی سب کچھ محض اس لئے کر رہے ہیں کہ ایک مسلمان لڑکی قادیانی کافروں کے چنگل سے بچا لی جائے تو اس مجبوری کے پیش نظر وقتی طور پر لڑکی کے قادیانی والد کی شرط ما ن لینے کی گنجائش ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعدِ إيمـنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـنِ وَلـكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّـهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾... سورة النحل
’’ جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو، مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ولهذا إتفق العلماء على أن المكره على الكفر يجوز له أن يوالى إبقاء لمهجته.‘‘( تفسير ابن كثير :ج2ص 606)
’’اہل علم کا اس رائے پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے تو وہ جان بچانے کے لئے کفر کےساتھ وقتی طورپر دوستی کر لے ۔‘‘
امام قرطبی لکھتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کےلئے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کر لے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو کافر نہیں ہو گا ، نہ اس کی بیوی اس سے جدا ہو گی اور نہ اس پر دیگر احکام کفر لاگو ہوں گے ۔ ( کتاب احسن البیان ص364)
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جان بچانے کےلیے کلمہ کفر کہہ دینا چاہیے ، بلکہ یہ محض رخصت ہے اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبوراً ایسا کہہ دے یا کرلے تو مواخذہ نہ ہو گا ، ورنہ مقام عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکہ بوٹی کر ڈالا جائے بہر حال وہ کلمہ حق ہی کا اعلان کرتا رہے ۔جیسے حضرت بلال کی نظیر ہمارے سامنے ہے ۔
بہر حال میں اس لڑکی کو کفر سے بچانے کےلئے بامر مجبوری وقتی طور پر مرزائی سے نکاح پڑھوا لیں اور ان کے رجسٹر پر لڑکا دستخط کردے ، بعد ازاں تجدید نکاح شرعاً ضروری ہے کیونکہ قادیانی کافر ہے اور کافر والد مسلمان بیٹی کا شرعاً ولی نہیں اور ولی کی اجازت کے بغیر شرعاً نکاح منعقد نہیں، لہذا لڑکی اس فرضی کاروائی کے بعد کسی مسلمان رشتہ دار مرد کو اپنا ولی مقرر کرکے نکاح پڑھوا لے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب