السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن وحدیث کی روشنی میں تعزیت کاطریقہ کیا ہے، میت کے لواحقین کے پاس جاکر میت کے لئے ہاتھ اٹھاکردعا کرنا اور رواداری کے طور پر قل خوانی میں شرکت کرلینا ،لیکن کھانے پینے سے اجتناب کرنا،اسی طرح محض علاقے داری کی وجہ سے جنازہ پڑھنا جبکہ جنازہ سنت کے مطابق نہ پڑھایاجارہاہو،ان تمام مسائل کی شرعی حیثیت واضح کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل میت کوتسلی دینا اورانہیں صبر کی تلقین کرناتعزیت کہلاتا ہے، نیز میت کے لئے دعا کرنابھی تعزیت میں شامل ہے لیکن دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا محض ایک رسم ہے۔ احادیث میں تعزیت کی فضیلت بایں الفاظ وارد ہے کہ ’’جواپنے کسی مسلمان بھائی کی کسی مصیبت میں تعزیت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے سبز رنگ کاحلہ پہنائیں گے جس کی وجہ سے وہ قیامت کے دن لوگوں کے لئے باعث رشک ہوگا۔‘‘ [مصنف ابن ابی شیبہ، ص:۱۶۴،ج ۴]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طورپران الفاظ سے تعزیت کیا کرتے تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ ہی کاتھا جواس نے لے لیا اورجواس نے دیاوہ بھی اسی کاہے۔ اللہ کے ہاں ہرچیز کاایک وقت مقرر ہے۔ ہمیں ثواب لینے کی نیت سے صبرکرنا چاہیے ۔‘‘ [مسندامام احمد، ص:۲۰۴،ج ۵]
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعزیت کے لئے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہیں تسلی دی، نیز میت کے گناہوں اور اس کے لئے رفع درجات کی دعا کی۔ [مسند امام احمد،ص:۲۹۷،ج۲]
تعزیت کے لئے تین دنوں کی تحدید بھی درست نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تین دن بعد ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی تھی۔ [مستدرک حاکم، ص:۲۹۸،ج ۲]
تعزیت کے سلسلہ میں دوچیزوں سے اجتناب کرناچاہیے :
(الف) گھریامسجد میں مخصوص طریقہ سے تعزیت کے لئے اجتماع کرنا۔
(ب) اہل میت کامہمانوں کے لئے کھانے کااہتمام کرنا ،ان دونوں کاموں کی احادیث میں ممانعت آئی ہے ۔قل خوانی میں شرکت درست نہیں ہے اورنہ ہی علاقہ داری کے طورپر جنازہ پڑھناجائز ہے، بلکہ جنازے کامقصد میت کے لئے دعاکرنا ہے، اس مقصد کے پیش نظر اگرسنت کے مطابق جنازہ نہ بھی پڑھاجائے توبھی شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب